کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 48
اسلام او رمغرب محمد اقبال کیلانی، الریاض موٴلف سلسلہ کتب ِتفہیم السنہ اسلامی جنگیں، دہشت گردی یا امن عالم کی ضمانت!؟ اللہ کی راہ میں مقدس جنگ ’جہاد فی سبیل اللہ ‘ کاایک حصہ ہے کیونکہ ’جہاد‘ غلبہ اسلام کے لئے ’مقابلے کی محنت‘ کو کہتے ہیں خواہ وہ علمی ہو، بدنی یا مالی۔ جہاد فی سبیل اللہ شریعت کی ایک جامع مانع اصطلاح ہے لیکن کچھ ہماری کم فہمی اور کچھ غیروں کی سازشوں سے اس کا مفہوم اتنابگڑا کہ جہاد کو صرف جنگی کاروائیوں کے لئے ہی بولا جانے لگاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری مکی زندگی تنظیم وجہاد سے خالی قرار پائی حالانکہ مکی سورتوں میں جابجا جہاد کا ذکر ہے تو دوسری طرف مسلمان کا انفرادی جھگڑا بھی ’جہاد‘ سمجھا جانے لگا جبکہ اسلام کی رو سے ایسا نہیں کیونکہ اگر ڈکیتی کے دوران کوئی مسلمان اپنے جان و مال یا عزت کی حفاظت میں ماراجائے تو وہ ’شہید‘ توہوگا لیکن اصطلاح میں اسے ’جہاد‘ نہیں کہتے۔ اسی طرح صلح حدیبیہ کے بعد اگر ابوجندل رضی اللہ عنہ اور ابوبصیر رضی اللہ عنہ وغیرہ کی انفرادی کارروائیوں کو ’جہاد فی سبیل اللہ‘ کا نام دیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کیوں لاتعلق رہے؟یہی وجہ ہے کہ علماءِ دین ان کارروائیوں کو ’جہاد‘ کے بجائے مشاغبۃ(جھگڑا) کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں …غرض ’جہاد‘ افراط و تفریط سے پاک اسلامی اجتماعیت کا ایک اہم نظام ہے جسے جمہوریت یا آمریت کے بالمقابل پیش کرکے دورِ حاضر میں اسلام کے مثبت امتیازی رویے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ زیر نظر مقالے میں محترم پروفیسر صاحب نے جبروتشدد کے بالمقابل اگرچہ اسلامی جنگوں کا اعلیٰ مقصد اور امن کا پہلو اجاگر کرنے کی قابل تعریف کاوش فرمائی ہے لیکن وہ بھی عوامی روسے متاثر ہو کر اسلامی تعلیمات کی تشریح میں تقریباً ہر جگہ ’قتال‘ یا ’جہاد‘ کو مترادف ہی قرا ر دیئے چلے جارہے ہیں حالانکہ باریک بین محدثین اور فقہاء نے جہاد و قتال کو علیحدہ علیحدہ ابواب میں تقسیم کیا ہے مثلا ً امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کی پہلی جلد میں کتاب الجہاد کے تحت احادیث جمع کی ہیں تو دوسری جلد میں مسلمانوں کے قتال کے لئے کتاب المغازي کا مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ اس نکتہ کی وضاحت اس لئے بھی ضروری ہے کہ افغانستان میں طالبان کے خلاف بغاوت ہو یا سعودی حکومت کے خلاف بیت اللہ پر مسلح قبضہ کی کارروائی، ہرجگہ اسے بلا دریغ جہاد فی سبیل اللہ ہی نہ سمجھ لیا جائے تاکہ دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمان حکمرانوں کی کمزوریوں کے باوجود ہر جگہ نوجوانوں کی کسی خاص ردعمل کے تحت مشتعل ہو کر مسلح کاررائیوں کی غیر مشروط حوصلہ افزائی نہ ہو۔ اس طرح جہاد یا اِرہاب (دہشت گردی) میں فرق کرنا مشکل ہو رہا ہے اورغیروں کو بھی اسلامی اصطلاحات کی غلط توجیہات کی صورت اسلام کو بدنام کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کی حریت و آزادی کی تحریکوں کی غیر مشروط حمایت کے لئے ’جہاد فی سبیل اللہ‘ کا نعرہ اس وقت بڑی تکلیف دہ صورت اختیار کرلیتا ہے جب آزاد ہونے والے علاقوں میں بے پناہ قربانیوں کے باوجود اسلام کی بجائے جمہوریت یا فسطائیت کے لادینی نظام ہی نافذ ہوتے ہیں ۔ کاش اہل علم و قلم جوشیلے نعروں کے بجائے اپنی سنجیدہ تحریروں میں اسلامی تعلیمات کے مثبت پہلو بھی اجاگر کریں تاکہ مسلمان عوام میں بھیڑ چال کا مزاج تبدیل ہوسکے۔ (محدث) کتاب و سنت میں جہاد فی سبیل اللہ کی زبردست ترغیب کے بعد قدرتی طور پریہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی حرب وجنگ میں یوں بے دریغ مرنے اور مارنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ مذہبی تعصب یا مذہبی جنون کانتیجہ ہے یا ہوسِ دولت