کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 45
مداخلت کا ایک وسیع دروازہ ہے۔ اور اس طرح انہیں قوموں کے مذاہب و عقائد اور جائز رسم ورواج پرہاتھ ڈالنے کا موقع ملتا ہے۔ اوریہ سارا گھناؤنا کھیل حقوقِ انسانی کے نام پر کھیلا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے انسانی حقوق کا ایشو یورپین ممالک کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن چکا ہے جسے وہ بعض ممالک سے اپنے مخصوص مطالبات منوانے اور اپنے اقتصادی اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے بطورِ ہتھیار کے استعمال کر رہے ہیں ۔ بعض ممالک کو تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متہم کیا جاتا ہے لیکن خطہ فلسطین ہو یا وادیٴ کشمیر، چیچنیاکے پہاڑ ہوں یا بوسنیا کا برف پوش علاقہ وہاں مغرب کا ایک نیا چہرہ سامنے آتا ہے۔ اگریہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ یہ نہایت بھونڈی سیاسی دہشت گردی ہے جسے یہ لوگ اپنے سیاسی اور اقتصادی مقاصد کے حصول کے لئے بعض بااثر ممالک کے ذریعے پھیلا رہے ہیں ۔ یقینا یہ شریعت ِاسلامیہ اور اس کے اَحکام کو مٹانے کے لئے ایک خفیہ حملہ ہے۔ اہل اسلام یہ اعلان کرتے ہیں کہ صرف وہی دنیا کے سامنے انسانی حقوق کا حقیقی چارٹر اور صحیح نقشہ پیش کرسکتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ چارٹر اور نقشہ انسانی حقوق کے ڈھنڈورچیوں کو خوش نہیں کرسکے گا۔ یقینا آپ کو تعجب اور حیرانگی ہوگی کہ یہ لوگ ایک ایسے مجرم کے حق میں توچیختے اور واویلا کرتے ہیں جس پر اللہ کا قانونِ ’قصاص‘ نافذ کیا جارہا ہو، ا س لئے کہ اس نے ایک جان کو ناحق قتل کیا یا ا س نے اللہ کی زمین میں فساد پھیلایا یا اللہ اور ا س کے رسول سے جنگ کی ہے۔ لیکن جب ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بے بس، بے گناہ اورکمزور مسلمانوں کو نہایت بے دردی سے تہ تیغ کیا جاتا ہے، ان پر آتش و آہن کی بارش کی جاتی ہے، ان کے گھروں کو منہدم کیا جاتا ہے، انہیں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا جاتاہے، ان کے بچوں اور عورتوں کو جلا وطن کیا جاتا ہے تو مہذب دنیا خاموشی سے یہ تماشا دیکھتی ہے اور کلمہ حق اور دلی ہمدردی کا ایک لفظ بھی ان کی زبان پر نہیں آتا۔ اس کی تازہ ترین مثال آگ میں جلتا اور خون میں تڑپتا ہوا چیچنیاہے۔گویا ان نہتے مسلمانوں پرجو ستم ڈھائے جارہے ہیں اور وہاں جن جرائم کا ارتکاب ہورہا ہے وہ جرائم ان لوگوں کی ڈکشنری میں شامل نہیں ہیں ۔کیونکہ یہ ان کے نزدیک ان ممالک کا اندرونی معاملہ ہے۔ لیکن افسوس کہ حقوقِ انسانی کے نام پردوسرے ممالک کے اقتدارِ اعلیٰ کی بے حرمتی کرتے ہوئے انہیں شرم نہیں آتی۔ اے لوگو! بتاؤ، اَخلاق کے بغیر انسان کی کیا قدروقیمت ہے؟ جب اپنی ذمہ داری ہی ادا نہ کی جائے تو ایسی آزادی کا کیا مطلب؟ جب فرائض پورے نہ کئے جائیں تو مطالبہ حقوق کا کیا معنی !!؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :