کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 43
انسانی معاشروں کے لئے صحیح عرف ِعام کو پیش نگاہ رکھا گیا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو اس چارٹر پر نظرثانی اور اس کی تشکیل نو کی متقاضی ہیں تاکہ اسے تمام اَقوام کی تمناؤں کے مطابق اوران کے عقائد صحیحہ اور مسلماتِ دینیہ سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔ اسی صورت میں ہی عدل و حریت اور بھائی چارہ کے بنیادی اُصولوں کو نافذ کیا اورکارگاہِ عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ وہ حقوق جن کی پامالی پر ہم زیادہ پریشان ہیں اور انسانیت کا ایک جم غفیر ان سے محروم ہے، وہ حقوق ہیں جن کے بغیر انسانی وجود برقرار نہیں رہ سکتا ہے۔ انہی حقوق کی طرف انبیاء اور مصلحین نے دعوت دی اوران کے قیام کی خاطر جہاد کیا۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ کروڑوں انسانوں کو خدا کا انکار کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے اورانہیں ایسی تعلیم حاصل کرنے پرمجبور کیا جاتا ہے جومذہب سے نفرت و حقارت کا جذبہ پیدا کرتی اور ان کے اسلاف اور ایسی رسومات کی شدید توہین کرتی ہے جنہیں مذہبی تقدس حاصل ہے ۔آج تمام دنیا استعمار کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ وہ جہاں معاشی وسائل اور خوراک کو لوٹ رہا ہے، وہاں وہ قوموں کے عقائد پربھی ڈاکہ ڈال رہا ہے، ان کے افکار کو زہر آلود کر رہا ہے اورانہیں ان کے ایمان سے گمراہ اور مقاصد سے ہٹانے میں کوشاں ہے۔ یقینا آج دنیا انسانی حقوق کے ایسے منشور کی طرف دیکھ رہی ہے جہاں عقل سلیم وحی الٰہی سے ہم آہنگ ہو۔ جب اس قسم کامنشور نافذ کردیا گیا تو یقینا دنیا اس کا خیرمقدم کرے گی۔ انسانی حقوق کی علمبردار بین الاقوامی اور ملکی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ اپنے دعوؤں اور رویوں پر نظرثانی کریں ۔ خاص طور پر مذہب اور ربّ کے ساتھ انسان کا فطری تعلق اور اس تعلق کے نتیجے میں اطاعت وفرمانبرداری اور ربّ العالمین کے سامنے جھکنے کا جو جذبہ پیدا ہوتا ہے، اس کے بارے میں انہیں اپنے موقف پر ضرور نظر ثانی کرنی چاہئے۔ جب انسانی معاشروں سے دینی راہنمائی ناپید ہوجاتی ہے تو ان کی زندگی کی ساری رونقیں ختم ہوجاتی ہیں اورحیاتِ بشری جہنم کا نمونہ بن جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں برآمد ہونے والے خطرناک نتائج بھی ان این جی اوز کے پیش نظر رہنے چاہئیں ۔ این جی اوز کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان انسانی دکھوں کو بھی شمار کریں جو دین سے مادر پدر آزادی کی صورت میں جنم لیتے ہیں ۔ لاکھوں انسانی جانیں نیست و نابود کرنے والی اجتماعی قتل کی مثالیں کیا انہیں اپنے رویوں کو بدلنے کی دعوت نہیں دیتیں ۔ بلقان میں جو خون کی ندیاں اور نہریں بہائی گئیں پھر قوقاز میں بہائی گئیں اور اب مقبوضہ فلسطین، جنوبی لبنان، مقبوضہ کشمیر، برما اور فلپائن میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا جارہا ہے، آخر یہ سب کچھ کیا ہے؟… کیا یہ ان