کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 42
﴿هُوَالَّذِیْ أنْشَأکُم مِنَ الأرْضِ وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِيْهَا فَاسْتَغْفِرُوْہُ ثُمَّ تُوْبُوْا إلَيْهِ إنَّ رَبِّیْ قَرِيْبٌ مُّجِيْبٌ﴾ (ہود:۶۱) ”وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پیدا کیا اور پھر اسی میں تمہیں بسا دیا، پس تمہیں چاہئے کہ اسی سے بخشش مانگو اور اس کی طرف رجوع کرو، یقین کرو، میرا پروردگار (ہر ایک کے) قریب ہے اور (ہرایک کی) دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔“ اس لئے مسلمان مکمل عزم اور وثوق سے یہ کہتے ہیں کہ اسلام ہی وہ پہلا مذہب ہے جس نے وسیع پیمانے پر اور کامل ترین صورت میں انسانی حقوق کے اُصولوں کا تعین کیا۔ وہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے انسانی حقوق کے یہ اصول دوسری قوموں کو سکھائے (ایکسپورٹ کئے) اور اس سلسلے میں دوسری قوموں نے مسلمانوں کے ہی خوانِ کرم سے زلہ ربائی کی، گویا انسانی حقوق کا سارے کا سارا سرمایہ اور سرچشمہ اسلام ہے۔ لیکن ستم یہ کہ یہی حقوق آج ہمیں سکھائے (امپورٹ کئے) جارہے ہیں ۔ گویا وہ ایک نئی انسانی دریافت ہے اور اس سے پہلے ہم ان حقوق سے واقف نہیں تھے۔ انہیں کون بتائے کہ یہ بات جو تم اب کر رہے ہو کوئی نئی اور انوکھی نہیں بلکہ تم تو جگالی کررہے ہو، یہ سب کچھ صدیوں پہلے ہوچکا ہے۔ ہماری اور ان مغربیوں اور مغرب زدگان کی مثال بارش کے اس پانی کی سی ہے جو آسمان سے اترتا ہے پھر زمین میں ٹھہر جاتا ہے۔ پھر عرصہ کے بعد ایک اُبلتے ہوئے جاری چشمہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے حقائق و اثرات جوان کی نظروں سے اوجھل تھے، اب پوری آب وتاب سے ان پر ظاہر ہورہے ہیں ۔ اسی طرح اہل اسلام برملا کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کی حقیقی اور یقینی ضمانت اورانہیں بطریق احسن کارگاہِ عمل میں لانے کی ایک ہی صورت ہے کہ اللہ کے بندوں کے فیصلے اللہ کی شریعت کے مطابق کئے جائیں اور تمام اسلامی معاشرے، تمام ممالک اور اَفراد اسلام سے وابستہ ہوجائیں ۔ اس کا مطلب تن پروری اور انسانی حقوق کو اپنی ذات تک محدود کرنا نہیں بلکہ مقصد انسانی تہذیب کے لئے نفع رساں وِرثہ اور مفید معلومات کی راہیں کھولنا ہے۔ آپ خود غور فرمائیے کہ اَقوامِ متحدہ کی طرف سے انسانی حقوق کے معاہدہ کا جو عالمی چارٹر شائع ہوا، اگرچہ اس میں بہت سے مثبت پہلو بھی ہیں لیکن پچاس برس سے زیادہ عرصہ بیت جانے کے باوجود عادلانہ طریقے سے انہیں نافذ نہیں کیا جاسکا اور نہ وہ مختلف علاقوں میں اقوامِ عالم پر ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کو روک سکا ہے۔ اور ان مظالم کا سب سے زیادہ شکار مسلمان ہوئے۔ اس لئے انسانی حقوق کے اس چارٹر پرنظرثانی کی ضرورت ہے جس میں نہ مختلف دینی اور ثقافتی خصوصیات کا لحاظ رکھا گیا ہے اورنہ