کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 40
تائیدکرے گا بشرطیکہ وہ حقوق ایک واضح نظامِ حیات کے اُصولوں سے متصادم نہ ہوں ۔ آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان ہر ذمہ داری اور جواب دہی سے آزاد ہوجائے۔ آزادیٴ اظہار کے نام پر دشنام طرازی اورہرزہ سرائی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ کیا حریت ِفکر کا یہ مطلب ہے کہ انسان کفر کا ارتکاب کرے اور تخریب کاری کا گھناؤنا فعل انجام دے۔ نقل وحمل کی آزادی کا مطلب قطعاً نہیں کہ دوسرے ممالک پر تسلط جما لیا جائے ہاں البتہ جو بات ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی کی طرف سے حقوقِ انسانی کی پامالی اور بے حرمتی ہو تواس کا محاسبہ کیا جائے اور اس کو مکمل سزا دی جائے۔ لیکن اس دوران مختلف قوموں کے دینی اور اعتقادی فرق کو ملحوظِ خاطر رکھنا بھی ضروری ہے۔ اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ دوسرے کے نظریات کا جائزہ لینے کے لئے بالکل غیر جانبداری سے کام لیا جائے۔ جہاں ہرایک کو سوال کرنے اور وضاحت طلب کرنے کا حق حاصل ہے تو وہاں پوچھے جانے والے کوبھی اپنے نظریات کی وضاحت کرنے کا پورا پورا موقع ملنا چاہئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بعض این جی اوز اسلام میں انسانی حقوق کے ایشو کا اِدراک کرنے اور اسلامی معاشروں کی خصوصیات کو سمجھنے میں ناکام رہی ہیں، لیکن ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا ان کا اسلام کی حقیقت اوراس کے اَحکام کو نہ سمجھنا اوراسلامی تشریحات کو سننے کا اپنے اندر حوصلہ نہ پانا ان کو یہ حق دے دیتا ہے کہ وہ اسلام کی حقیقی صورت کو مسخ کرکے پیش کریں اور ا س کے مبادیات کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنائیں ۔ ہم مکمل وثوق سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی اصول و اَقدار ہی وہ منفرداُصول و قوانین ہیں جو انسان کی ترقی اوراس کی عظمت اور حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں ۔ اسلامی تہذیب اس لحاظ سے خصوصیت کی حامل ہے کہ یہ تہذیب اپنے اصول و تشریحات اور اپنے نظریاتی اور ثقافتی ڈھانچے کے لحاظ سے دوسری تہذیبوں سے بالکل مختلف ہے اوراہل اسلام کو باقی لوگوں سے ممتاز کرتی ہے۔اسلام ہی ایسا دین ہے جس نے مسلمانوں کی شخصیت کو ایک عمدہ قالب میں ڈھالا، کیونکہ اس کی بنیاد وحی الٰہی” اللہ کی کتاب اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت“ ہے۔ متجددین کا یہ دعویٰ نہایت افسوسناک ہے کہ وحی الٰہی آج کے جدید تقاضوں کو پورا کرنے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکتی۔ یہ لوگ دین اور دنیا کی جدائی کا راگ الاپ رہے ہیں ۔ ان کی تنظیمیں دین وسیاست کی تفریق کی دعوت دے رہی ہیں ۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ دین کو دنیاوی زندگی سے کوئی سروکار نہیں۔ جبکہ اس کے مقابل اسلام، دین اور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے کو ہی اوّلین اور اہم ترین مقصد قرار دیتا ہے۔ اسلام کی رو سے دین ہی اولین ضرورت بلکہ تمام حقوق کا سرچشمہ ہے۔ اسی سے