کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 39
ہمیشہ رہنا ہے اور آخرت کے لئے اس طرح محنت کرو گویا تم نے کل مرجانا ہے۔ پوری لگن اور شوق سے آخرت کو اپنا مقصودبنا لو۔ نافرمانی کے کاموں اور انعاماتِ خداوندی کی ناشکری سے بچو۔ جب بھی کوئی قوم کفرانِ نعمت کی مرتکب ہوئی اور پھر اس نے توبہ بھی نہ کی تو اللہ نے اس سے عزت چھین لی اور د شمن کواس پرمسلط کردیا۔ جو آج ڈر گیا، کل کو محفوظ ہوگیا۔بھلا جس نے قلیل کو کثیر اور فانی کو ابدی کے بدلے فروخت کردیا، اس کا سودا خسارے کاسودا کیسے ہوسکتاہے؟۔ اور یاد رکھو! ایک دن تمہیں پوشیدہ اور ظاہری امور کی خبر رکھنے والے ربّ کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ پھر وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو!!
اے مسلمانو! ایک عقلمند انسان اپنی فطرت سے اس مرجع الخلائق مقتدر ہستی کو پہچان سکتاہے جو اس کے تمام معاملات کو منظم کرتی ہے، اس کے توازن کو برقرار رکھتی ہے، اسے گمراہی کے بھنورسے نکالتی ہے، اس کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے،اس کے دین، جان ومال اور عزت و آبرو کے تمام گوشوں کو ایک منظم اور مرتب اَنداز میں امن مہیاکرتی ہے۔
یہ تمام حقوق اور عالمگیر اَمن کا مرجع اللہ تعالیٰ کی کا دین ہے جس پر اس نے تمام انسانوں کی تخلیق فرمائی اوران حقوق کا اِطلاق زندگی کے ہر شعبہ پر ہوگا۔ خواہ اس کا تعلق انسانی زندگی سے ہو، عدل وانصاف سے ہویا آزادی سے۔ ہر انسان کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی جان، مال، عزت و آبرو اور اپنے عقائد کی حفاظت کرے کیونکہ تمام انسان اپنی ماں کے شکم سے آزاد پیدا ہوئے ہیں اور یہ تمام حقوق انسانیت کے لئے اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہیں ۔
یہ انسانی حقوق نہ تو درآمد (Import) کئے جاسکتے ہیں اورنہ ہی اپنی عقل سے فرض کئے جاسکتے ہیں ۔ یہ خود بخود اُبھرتے اور جنم لیتے ہیں ۔ وہ انسانی معاشرہ سے پھوٹتے ہیں اوران کی بنیاد وہ دین ہے جسے اللہ نے انسانیت کے لئے پسند فرمایا۔ اے مسلمانو! حکمران اور رعایا کے درمیان معاہدہ کی رو سے بنیادی ستون جن پر اِن حقوق کی عمارت استوار ہے، دو ہیں : ریاست اور عوام۔ اگر اس حقیقت کو سمجھ لیا جائے تو پھر یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اورانسانی حقوق کے علمبرداروں اور اس کے حامیوں کی مخالفت کرے گا۔ اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنا جرم ہے تو یقینا انسانی حقوق کی تعریف، ان کے تعین اوران حقوق کی تفصیل میں متردّد ہونا بہت بڑا جرم ہے۔ اورپھر انسانی حقوق کے نام پراپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے حصول کے لئے بے حیائی کے کلچر کو فروغ دینا اس سے بھی زیادہ المناک اور وحشت ناک ہے۔
جو شخص اپنے آپ کا احترام کرتا ہے وہ یقینا کھلے دل سے اور غیر مشروط طور پر حقوق انسانی کی بھی
[1] مسند احمد بن حنبل: ۵/۲۵۹، معجم کبیر طبرانی : ۷/۲۲۵ نمبر ۷۷۸۶… علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی نسبت مسندامام رویانی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کی ہے اور اسے ’حسن‘ قرار دیا ہے،دیکھئے: السلسلۃ الصحیحۃ: رقم ۲۰۴
[2] جامع البیان : ۲/۱۹۴، الدر المنثور: ۱/۳۷، تفسیر ابن کثیر:۱/۳۷۱ (آیت المائدہ: ۱۴۳)