کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 106
وہ غریبوں کو دے دیا کرو لیکن بعد میں جب فراخی و رفاہیت کا زمانہ آیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے سونے چاندی پر چالیسواں حصہ زکوٰۃ فرض کردی اورباقی اُنتالیس حصے صاحب ِمال کو اللہ تعالیٰ نے دے دیئے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مال میں سے زکوٰۃ اداکرتے اور باقی مال اپنے تصرف میں لاتے لیکن حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے اسی پرانے مسلک پر سختی سے کاربند رہے اور جب دوسروں کو مسئلہ بتاتے تو بھی یہی کہتے کہ جو ضرورت سے بچ رہے، وہ خدا کی راہ میں دے دو ۔ اس بارے میں وہ اپنے سے بڑے صحابہ کی مخالفت کی بھی پرواہ نہ کرتے نہ ہی فتویٰ اور تقویٰ کا فرق ملحوظ رکھتے۔ حالانکہ فتویٰ اور چیز ہے اور تقویٰ اور چیز ہے! حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ اَجلہ صحابہ کرام سے ہیں ۔ بڑے عابد، زاہد، اور شب زندہ دار تھے۔ پوری اُمت کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ان کااحترام ملحوظ رکھتے اور ان کے مسلک کو لازمی نہ سمجھتے ہوئے بھی ان سے اُلجھنا پسندنہ کرتے۔ شام سے واپسی شام سے واپس آنے کی وجہ یہ ہوئی کہ حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ،امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ ان دنوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے شام کے گورنر تھے۔ آپ کے پاس حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی تشریف فرماتھے۔ ان دنوں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تھی اور انہوں نے جتنی دولت اپنے ترکہ میں چھوڑی تھی، اس کا ہر جگہ چرچا تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی دولت کے متعلق سوال کیا اور کہا کہ ’’بتاؤ، تمہارے خیال میں جو عبدالرحمن نے اتنی دولت جمع کر رکھی تھی،یہ صحیح ہے یا غلط، جائز تھی یا ناجائز؟‘‘ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا اگر حضرت عبدالرحمن اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر رہے ہوں تو پھر آخر کیا حرج ہے، ٹھیک ہے۔ یہ جواب چونکہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے مسلک کے خلاف تھا، لہٰذا آپ اپنا عصا اُٹھا کر ان کو مارنے کے لئے دوڑے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیچ بچاؤ کرکے ان کوبچا لیا۔ اور پھر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جو کچھ آپ نے کیا صحیح نہیں تھا اور جو آپ نے ایک نظریہ قائم کر لیا ہے، وہ بھی صحیح نہیں ہے۔اس معاملہ میں آپ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اتفاق کریں اور پھر یہ بھی سوچیں : اگر ساری دولت ہی دینا درست ہو تو زکوٰۃ اور زکوٰۃ کے تمام مسائل تو محض بے فائدہ ہوگئے۔ اس مسئلہ میں چونکہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے اختلاف ہوگیا اور پھر یہ اختلاف بڑھتا گیا، بالآخر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب تک تم شام میں ہو، خدا کی قسم میں شام میں نہیں رہوں گا۔ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے ساری کیفیت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کولکھ کر بھیج دی۔ آپ نے ہدایت بھیجی کہ ابوذر رضی اللہ عنہ سے بالکل نہ اُلجھو۔ وہ ایک متقی بزرگ ہیں، ان کے احترام کو ملحوظ رکھو۔ لیکن چونکہ وہ قسم اٹھا چکے ہیں کہ جب