کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 105
ایک منزل سے کوئی دو منزل سے لیکن مخلص مسلمانوں میں سے کوئی آدمی بھی پیچھے نہ رہا۔ ماسوائے ان تین آدمیوں کے جن کو خدا تعالیٰ کی مشیت نے ہی پیچھے رکھ لیا تھا۔ مسلمانوں کے لشکر کی کل تعداد تیس ہزار تھی۔ سفر کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روزانہ شام کو رپورٹ مل جاتی کہ اس منزل پر فلاں فلاں آدمی پیچھے رہ گیا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: چھوڑ دو اس کو، اگر اس میں کوئی بھلائی ہے تو وہ تم سے آملے گا اور اگر منافق ہے تو اللہ تعالیٰ نے تم کو اس سے نجات بخشی۔ ابوذر رضی اللہ عنہ بھی پیچھے رہ گئے! پھر ایک دن یہ رپورٹ پیش ہوئی کہ ابوذر رضی اللہ عنہ پیچھے رہ گیا ہے۔ (جس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا اونٹ کمزور اور لاغر تھا، وہ تھک گیا تو آپ نے کچھ دیر سستانے کے لئے چھوڑ دیا لیکن دوسرے دن تک بھی سفر کے قابل نہ ہوا تو اسے جنگل ہی میں چھوڑ دیا او رپالان او رسامان سر پراُٹھایا اور پیدل سفر کرتے ہوئے لشکر سے آملے) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بات کہی جو پہلے کہتے تھے۔ پھر ایک منزل پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا توکسی نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کچھ گرد اُڑتی نظر آرہی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی آدمی آرہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: یا اللہ! ابوذر رضی اللہ عنہ ہو۔ جب لوگوں نے غور سے دیکھا توکہنے لگے: اللہ کی قسم! وہ ابوذر رضی اللہ عنہ ہی ہیں ۔ تو زبانِ رسالت سے یہ اَلفاظ صادر ہوئے کہ ’’اللہ ابوذر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے۔یہ خدا کی راہ میں اکیلا سفر کرتاہے اور اکیلا ہی مرے گا، اور قیامت کواکیلا ہی اٹھے گا‘‘ اور پھر تاریخ نے ثابت کردیا کہ اس پیشین گوئی کا ایک ایک لفظ پورا ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد ان کی طبیعت کچھ ایسی مجروح ہوئی کہ مدینہ کی گلیاں اور بازار کاٹ کھانے کو دوڑتے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھنے والی کوئی چیز دیکھتے تو بے اختیار ہو کر روتے۔ اور اتنا روتے کہ بے حال ہوجاتے ۔ آخر آپ کی بیوی اُمّ ذر اور دوسرے لوگوں نے بھی مشورہ دیا کہ آپ مدینہ منورہ چھوڑ کر کسی اور جگہ چلے جائیں چنانچہ آپ شام کے علاقہ میں چلے گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا مسلک اور اس میں پختگی قرآنِ مجید میں ہے کہ ﴿ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ﴾ (آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ؟ آپ کہیں : تمہاری ضروریات سے جو زائد ہو، وہ فی سبیل اللہ خرچ کردو) اسلام کے ابتدائی عہد میں چونکہ غربت زیادہ تھی، اس لئے حکم دیا گیا تھاکہ ضروری اخراجات کے بعد باقی جو بچے