کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 104
عیینہ بن حسن بن حذیفہ بن بدر کو پتہ چلا کہ مدینہ کی چراگاہ میں مسلمانوں کے بہت سے اونٹ چرتے ہیں اور رکھوالا صرف ایک آدمی ہے۔ وہ بنو غطفان کی ایک جماعت لے کر چراگاہ پرحملہ آور ہوا۔چرواہے (ذرّ رضی اللہ عنہ ) کو قتل کردیا،اس کی بیوی لیلیٰ کواٹھا لیا اور اونٹ ہانک کر لے گیا۔ چراگاہ سے نکلتے ہی سلمہ رضی اللہ عنہ بن اکوع نے اسے دیکھ لیا کہ چرواہے کو قتل کرکے اونٹ لے جارہا ہے۔ سلمہ بڑے بلند آواز تھے۔ ایک پہاڑی پر چڑھ کر بلند آواز سے مدینہ کی طرف منہ کرکے پکارا کہ جلدی آجاؤ غطفانی حملہ کرکے اونٹ لے جارہے ہیں ۔ چنانچہ ان کی آواز مدینہ کی پہاڑیوں سے ٹکرا کر گونجنے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر لے کر تعاقب کیا۔ اونٹ چھڑا لئے اور غطفانیوں کا مالِ غینمت لے آئے، لیلیٰ رضی اللہ عنہا بھی واپس آگئیں ۔ مدینے پہنچ کر لیلیٰ رضی اللہ عنہا نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں [قید کے دوران]آپ کی اونٹنی عضباء پر سوار رہی ہوں، میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس اونٹنی پر نجات دی تو میں اس کو خدا کی راہ میں ذبح کروں گی۔ اب کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: تو نے اس کو بہت برا بدلہ دیا۔ وہ تو تجھے بچائے اور تو اس کو ذبح کرلے۔ اور پھر یہ بھی تو دیکھو، وہ میری اونٹنی ہے، تمہاری نہیں ۔ اور آدمی جس چیز کا مالک نہ ہو، اس کی نذر ماننا کوئی حقیقت نہیں رکھتا…!! ملازمت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم جنگ ِخندق کے بعد حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ تمام جنگوں میں ہم رکاب رہے۔ د ن رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہتے۔پھر ایک روز ایک فیصلہ کن جنگ کی تیاری ہونے لگی اور یہ جنگ تھی: غزوۂ تبوک جوکہ ۹ ہجری میں پیش آئی۔ اس جنگ کا پس منظر یہ تھا کہ ہرقل نے مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ سن لیا اور خوف زدہ ہو کر جنگ کی تیاری کرنے لگا کہ کہیں ہم پرمسلمان حملہ نہ کریں ۔ ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب شاہِ روم کی جنگی تیاریوں کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجائے ا س کے کہ اس حملے کا انتظار کرتے، اس کے ملک میں اس کی مدافعت کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ دشمن کی فوج ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ اور وہ بھی تربیت یافتہ فوج۔ سفر نہایت دور دراز کا تھا۔ موسم انتہائی گرم تھا، باغوں کے پھل پکے ہوئے تھے۔ پچھلا ذخیرۂ خوراک ختم ہوچکا تھا اور سفر پر جانے سے آئندہ کا پھل ضائع ہوجانا یقینی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس لڑائی کانام جیش العسرۃ (تنگدستی کا لشکر) پڑ گیا۔ ایسے موقع پر مؤمن مخلص ہی آنحضرت کے ہمرکاب نکل سکتے تھے۔ منافقوں سے اس کی کوئی توقع نہ تھی۔ منافقوں کی اکثریت تو مختلف بہانے بناکر مدینہ منورہ سے نکل ہی نہ سکی اور کچھ منافق ساتھ نکلے۔ تاکہ یہ پتہ نہ چل جائے کہ سارے منافق ہی پیچھے رہ گئے ہیں لیکن راستہ سے واپس ہونے لگے۔ کوئی