کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 103
غریبوں، تنگدستوں، محتاجوں، مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کی دستگیری کرنے والا،جو ہاتھ میں آئے غریبوں پر خرچ کردینے والا اور دوسروں کے پاس جائز ذرائع سے پیدا شدہ حلال کی دولت بھی دیکھ کر ان سے اُلجھ جانے والا کہ اس دولت کو اپنے پاس رکھتے ہی کیوں ہو۔ اس کی ساری دولت کو غریبوں پر خرچ کردو۔تاکہ دنیا میں کوئی آدمی غریب نہ رہے ع سارے جہاں کا درد ہمارے ہی دل میں ہے! سورج کی کرنیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک ہی جماعت میں آپ مختلف رنگ دیکھیں گے۔ کوئی نرم مزاج، کوئی سخت گیر، کوئی امیر، کوئی غریب، کوئی بڑا کوئی چھوٹا لیکن جس کو بھی جس رنگ میں دیکھو گے، بے مثال پاؤ گے۔خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کی سپہ سالاری بھی دیکھنے کی چیز ہے۔ اور معزولی کے وقت سمعًا وّطاعۃ للأمیر(ہم نے امیر کا حکم سنااور سرخم کردیا) کہنا بھی مثالی ہے۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی دولت مندی بھی مثالی ہے لیکن مزاج کا فقر بھی اپنی مثال آپ ہے جن کو مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کی غریبی اور ناداری قابل رشک معلوم ہوتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان سے سخت کلمہ نکل جانا اور پھر اس کی معافی مانگنا بھی یاد ہے۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا باوجود مطالبے کے انتقام نہ لینا بھی تاریخ میں ہیرے کی طرح جگمگاتا رہے گا۔ بہرحال صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ ساری کیفیتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت ہی کانتیجہ تھیں ۔ کوئی کسی رنگ میں رنگا گیا اور کوئی کسی میں … ابوذر رضی اللہ عنہ پر یہ رنگ چڑھا تھا ع ایک پہلو یہ بھی ہے اسلام کی تصویر کا! ابوذر رضی اللہ عنہ کا مقام حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ جتنی دیر بعد آئے،اتنے ہی درست آئے۔ سارا گھر خدامِ نبوت میں شامل ہوگیا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لگ گئے۔ بیوی اُمہات المومنین رضی اللہ عنہن کی خدمت میں پہنچ گئیں ۔ صدقہ کے اونٹ کچھ جمع ہوچکے تھے۔ رسالت ِمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: صدقہ کے اونٹ کون چرائے گا؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نگاہ بھر کر دیکھا۔ مطلب یہ تھا کہ سترہ سال کی طویل جدائی کے بعد ملے ہو تو اب پھر جدا ہونے کو دل چاہ رہا ہے۔ عرض کیا: حضرت !میرا بیٹا اونٹ چرائے گا۔ اگر کاشانۂ نبوت کی گلہ بانی نصیب ہوجائے تو تاجِ خسرو سے سوا ہے۔بہرحال ان کے بیٹے ذرّ بمعہ اپنی بیوی لیلیٰ کے اونٹ لے کر چراگاہ میں آگئے۔ یہ چراگاہ مدینہ منورہ کی مشہور چراگاہ غابۃ تھی جو کہ مدینہ منورہ سے شمال کی طرف تین چار میل کے فاصلہ پر تھی۔ انہی اونٹوں میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی اونٹ بھی تھے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور زمانہ اونٹنی عضباء بھی انہی میں تھی۔