کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 102
ہوگئیں ۔ شادان و فرحاں قرآن پڑھتے گئے۔ آج پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کوپتہ چلا تو آپ دارالندوہ میں آئے۔ اُن کو چھڑایا اور قریش کو کہا: خدا تمہارا برا کرے،اگر تمہاری تجارت بند ہوگئی تو کتنے دن جیو گے۔ اپنی شاہ رگ پر چھری نہ رکھا کرو۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سارا جسم لہولہان تھا۔ آج دل مطمئن تھا،طبیعت سیر ہوچکی تھی اور اس مار کے دوران خدا ہی بہتر جانے، آپ کو کتنے راز منکشف ہوئے۔ کفر اور ایمان کا مزاج ذرا غور کرو… کفر کتنا ڈرپوک اور بزدل ہے اور ایمان کتنا جری اور دلیر۔ یہ ایک ہی شخص کی زندگی کے دو نمونے ہیں ۔ صرف ایک دن پہلے طبیعت پرکفار کا اتنا خوف مسلط ہے کہ کسی سے ڈر کے مارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھتے تک نہیں ۔ مبادا کوئی تکلیف نہ پہنچے اور دوسرے دن جب مسلمان ہوگئے تو اتنی جرات پیداہوگئی کہ طبیعت بے اختیار ہونے لگی اور اس کا انجام؟ …اس سے بالکل بے پرواہ ہوگئی۔ پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی واپسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں چند روز رہنے کے بعد اپنے قبیلے میں واپس آگئے اور جو حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا،اس کی تعمیل میں دن رات کوشاں رہے۔ تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا۔ ان کے قبیلے کے کئی آدمی مسلمان ہوکربارگاہِ نبوت میں پہنچتے رہے اوراس ایمانی شان سے پہنچتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے بے اختیار دعانکل جاتی: غَفَّارٌ غَفَرَاﷲ لَھَا (بنو غفار کو اللہ معاف کرے)لیکن وہ سراپا عشق و سرمستی خود پورے سترہ سال تک مہجوری کی بھٹی میں پڑے رہے اور خالص کندن بن کردمکے اور جگمگائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: جب اسلام کا بول بالا ہوجائے، اس وقت میرے پاس آنا۔ پھر ابوذر رضی اللہ عنہ خندق کے بعد حاضر خدمت ہوئے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کون تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے تیرہ سال پہلے ان کے دل میں ایمان کا بیج بویا تھا، آج وہ ایک تناور درخت بن چکا تھا، اس کے پھل پک کرتیار ہوچکے تھے… ابوذر رضی اللہ عنہ کون تھے؟ اس بھری پُری دنیا میں ایک غریب الدیار، ایک مسافر جس کی نگاہوں میں دنیا کی بے ثباتی اور دل میں دنیا سے بے رغبتی کاایک لازوال تصور تھا۔ وہ ابوذر رضی اللہ عنہ جس کے خاندان کا پیشہ ڈاکہ زنی تھا، وہ آج دنیائے انسانیت کا تاجدار تھا۔