کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 101
میں رہوں گا، اسلام کی تلقین کروں گا اور جب اسلام کاغلبہ ہوگا اس وقت حاضر خدمت ہوں گا لیکن آپ اپنے حکم میں تھوڑی سی تبدیلی کرلیں ۔میرا دل چاہتا ہے کہ خانہ کعبہ میں جاکر ایک دفعہ بلند آواز سے لوگوں کوقرآن سناؤں، اس کی اجازت فرمائیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مار کھاؤ گے،خاموش رہو۔ کہنے لگے:آج واقعی مار کھانے کو دل بے قرار ہے…چنانچہ آپ نے اجازت دے دی۔ قریش کے مجمع میں قرآن کی آواز بلند ہوئی! حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کاشانۂ نبوت سے نکل کر سیدھے خانہ کعبہ پہنچے۔قریشی سردار اور نوجوان سبھی دارالندوہ میں بیٹھے تھے کہ یک لخت قرآن کی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔ سانپ کی طرح بل کھاگئے اور خانہ کعبہ میں پہنچے۔ دیکھا کہ ایک نوجوان قرآن پڑھ رہا ہے، اس پر ٹوٹ پڑے۔ مار پیٹ کے نتیجہ میں لباس تارتار ہوا اور چہرہ گلنار۔ جسم کا بند بند درد سے چیخ اٹھا لیکن اس بندۂ مومن کی زبان اور لب قرآن کی تلاوت میں مصروف رہے۔کہیں سے حضرت عباس بن عبدالمطّلب آپہنچے تو ان کو دیکھ کر پہچان لیا اور کہا کہ یہ تو بنو غفار کا آدمی ہے۔یہ تمہارا تجارتی راستہ بندکردیں گے اور بھوکے مرجاؤ گے۔ بہرحال انہوں نے چھڑا دیا۔ بارگاہِ نبوت میں پہنچے، لباس اور جسم خون آلود اور دل ایمانی قوت سے بھرا ہوا تھا۔ لباس تار تار اور جسم داغدار تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا: میں نے نہ کہا تھاکہ خاموشی سے نکل جاؤ۔اب پتھر گرم کرکے جسم پر ٹکور کرو۔ عرض کیا ع ہر بن موزخم شدہ پنبہ کجا کجا نہم! اور ساتھ ہی عرض کیا: یا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ! ابھی دل کے ارمان پوری طرح نہیں نکلے، کل کے لئے پھر اجازت مرحمت فرمائیں ۔ چنانچہ ان کا شوق دیکھ کر رسالت ِمآب نے پھر اجازت دے دی۔ دوسرا دن کل کی نسبت آج کچھ ایمان سوا تھا۔ اسلام کی اس خار دار وادی میں قدم بے دھڑک اُٹھنے لگے۔ دل کا سوز اور زبان کا جوش دونوں اپنی جوانی پر تھے۔ کل کی مار خدا ہی جانے اس اسلام کے دیوانے کو کتنے مراحل طے کرا گئی تھی۔ آج سیدھے دارالندوہ ہی پہنچے۔جہاں قریشی سرداروں اور نوجوانوں کا جمگھٹا رہتا تھا۔ جسم پر وہی کل والا خون آلود اور تار تار لباس تھا۔ جسم پر جگہ جگہ نئے نئے زخم لگے ہوئے تھے لیکن چال میں ایک وقار تھا اور گلے میں سوز… قرآن کے الفاظ، لہجہ عربی اور دل ایمان سے معمور، فضا میں قرآن کی آواز بلند ہوئی اور وہ آواز جو مؤمنوں کے کانوں میں رس گھولتی تھی، کفار اشرار کے کانوں میں زہر گھول گئی۔ بے اختیار اٹھ کھڑے ہوئے اور فضا میں دو آوازیں برابر سنائی دیتی رہیں ۔ ایک قرآن کی آواز اور دوسری مار پیٹ اور گالی گلوچ کی آواز۔ آج جسم پہلے کی نسبت خوب لہولہان ہوا تھا۔ دل کی حسرتیں پوری