کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 100
دوں گا۔ راستہ کی احتیاط حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم او ران کے متبعین آج بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں ۔ قریش کی دشمنی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے، تم نے بہت اچھا کیا جو کسی سے آنحضرت کے متعلق نہ پوچھا ورنہ لوگ تمہیں بھی پیٹ دیتے۔ اب بھی ذرا احتیاط سے آنا۔ تم میرے پیچھے اتنے فاصلہ پر آؤ کہ اگر کوئی رستہ میں مل جائے تو اسے یہ گمان نہ ہو کہ تم میرے پیچھے آرہے ہو۔ اگر رستہ صاف ہو تو خیروگرنہ خدانخواستہ کوئی رستہ میں مل گیا تو میں اس طرح جوتا اُتار کر صاف کرنے لگوں گا جیسے کوئی کنکر وغیرہ جوتے میں آگیا ہو اور اتنے میں تم سیدھے نکل جانا، میرے پاس نہ ٹھہرنا۔‘‘ بار گاہِ نبوت میں حاضری بالآخر اسی احتیاط سے چلتے ہوئے آپ بارگاہِ نبوت میں پہنچ گئے۔ چہرۂ انور دیکھتے ہی فوراً بول اُٹھے : ھذا الوجہ لیس بکذاب(یہ مبارک چہرہ کسی جھوٹے آدمی کانہیں ہوسکتا) پھر گفتگو شروع ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسلام کی دعوت پیش کی جس کاخلاصہ یہ تھا کہ ’’اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک سمجھو، وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں، اچھے کام کرو، نیکی پھیلاؤ،برائی سے بچو اور برائی سے لوگوں کو روکو‘‘۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تھوڑا سا قرآن سنایا۔ اس کے بعد انہوں نے کلمہ شہادت پڑھ لیا… آپ پانچویں مسلمان تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابوذر رضی اللہ عنہ !اس وقت اسلام بڑے سخت دور سے گزر رہا ہے۔ مسلمانوں کو اذیت ناک تکلیفیں دی جارہی ہیں ۔ ہماری تعداد اس وقت بہت تھوڑی ہے۔ ہماری حمایت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔کفار بدکردار کے دل میں جو آتا ہے، کر گزرتے ہیں اور جتنا کسی کو چاہتے ہیں، مار تے پیٹتے ہیں ۔ لہٰذا تم اپنے ایمان کو ظاہر نہ کرو۔ اور چپ چاپ اپنے قبیلے میں چلے جاؤ۔ وہاں جاکر اسلام کی تلقین کرو اور جو قرآن تم نے مجھ سے سیکھا ہے، یہ لوگوں کو سکھاؤ۔جب اسلام کا بول بالا ہوجائے، مسلمانوں کی تعداد بڑھ جائے، اس وقت میرے پاس چلے آنا۔‘‘ ایمان کی حرارت آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو سنا اور عرض کیا: حضور !میں یہاں سے چلا جاؤں گا، اپنے قبیلہ