کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 9
ہو مگر وہ لوگ جو یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں اور غرورِ علم میں مبتلا ہیں وہ لاعلمی کا عذر پیش کرکے اس ذمہ داری سے پہلو کیسے بچا سکتے ہیں ؟ قانون سے لاعلمی کو سزا سے بریت کا جواز تسلیم نہیں کیا جاتا تو ان عالم فاضل اَفراد کی طرف سے بسنت کے بارے میں اس تجاہل عارفانہ کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے۔
لاہور شروع سے بسنت کا مرکز رہا ہے، مگر چند برسوں سے جس رنگ میں یہاں بسنت منایا جاتا رہا ہے، ا س کی مثال نہیں ملتی۔ محمد حنیف قریشی صاحب اپنے مضمون میں ” بسنت کا تہوار، تاریخ و مذہب کے آئینہ میں “ لاہور میں بسنت کے تہوار کے بارے میں موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ بسنت ایک موسمی اور ثقافتی تہوار ہے، جس کا مذہب اور قوم سے کوئی تعلق نہیں تاہم ابھی ایسے بزرگ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہوں گے جو اس امر کی شہادت دیں گے کہ آزادی سے قبل بسنت کو عام طور پر ہندوؤں کا تہوار ہی سمجھا جاتا تھا اور لاہور میں ہی جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ جہاں دو تین جگہ بسنت میلہ منعقد ہوتا تھا، ہندو مرد اور عورتیں باغبانپورہ لاہور کے قریب حقیقت رائے کی سمادھ پر حاضری دیتے اور وہیں میلہ لگاتے۔ مرد زرد رنگ کی پگڑیاں باندھے ہوتے اور عورتیں اسی رنگ کا لباس ساڑھی وغیرہ پہنتیں ۔ سکھ مرد اور عورتیں اس کے علاوہ گوردوارہ اور گورومانگٹ پہ بھی میلہ لگاتے۔ ہر جگہ خوب پتنگ بازی ہوتی۔ اندرون شہر بھی پتنگیں اُڑائی جاتیں اور لاکھوں روپیہ اس تفریح پر خرچ کیا جاتا۔ مسلمان بھی اس میں حصہ لیتے مگر زرد کپڑوں وغیرہ کے استعمال سے گریز کرتے۔ یہ سارا کھیل دن کو ہوتا، رات کو روشنیاں لگانے اور لاؤڈ سپیکر، آتش بازی یا اسلحہ کے استعمال کا رواج نہ تھا“ ( نقوش، لاہور نمبر)
مذہبی لحاظ سے تو بسنت منانا قابل اعتراض ہے ہی، خالصتاً موسمی اور ثقافتی تہوار کی حیثیت سے بھی اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ گذشتہ چند برسوں سے لاہور کے نودولیتوں ، اَوباشوں ، سمگلروں اور عیاشوں نے بسنت کے تہوار کو اپنی اباحیت ِمطلقہ کے اِظہار کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ایک بظاہرسماجی تہوار میں جس طرح سماجی اَخلاقیات کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں ، وہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے۔ شاید ہی کوئی دوسرا ثقافتی تہوار ہو جس میں اس قدر وسیع پیمانے پر شراب وکباب اور شباب کا استعمال کیا جاتاہے۔ اخبارات میں فائیو سٹار ہوٹلوں ، حویلیوں اور بعض کو ٹھیوں میں بسنت منانے والے خواتین و حضرات کی تصاویر عام شائع ہوتی ہیں ، مگر ان مواقع پر رقص و سرود، شراب نوشی اور طوائف بازی کی بے باکانہ گناہ آلود مجالس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ تویہ ہوتی ہے کہ ایسی مجالس میں منتخب افراد کو مدعو کیا جاتا ہے، دوسری یہ کہ ان مجالس کے شرکا اس کی تفصیلات ہر صحافی کو کم ہی بتاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ صحانی حضرات کو بھی ان مجالس میں اس شرط پر شریک کیا جاتاہے کہ وہ راز داری قائم رکھیں گے۔ ان مجالس میں ثقافت کے نام پر جو جو جنسی ذلالتیں او رہوسناکیاں برپا کی جاتی ہیں ، انہیں منظر عام پر اگر لایاجاسکے تو قوم کو معلوم ہوگا کہ ایک اسلامی ریاست میں فحاشی کی کون کون صورتیں طبقہ اُمرا میں مروّج ہیں ۔