کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 89
سرسنے تو اپنے اَشعار ان سے گوائے۔ بہرحال بغداد میں جو دارالخلافہ تھا، ناچ گانے کا خوب زور ہوا اور گانے کی مجلسیں خوب جمنے لگیں جن کا آج تک چرچا ہے اور عرب لہو و لعب میں سب سے آگے بڑھ گئے۔ رقص و سرود کے سامان و اَوزار تیار ہونے لگے۔ گویوں کے لباس خاص طرح کے بننے لگے۔ گانے کے بول عام اَشعار سے علیحدہ ہوگئے۔ابن خلدون موسیقی کے فروغ کے اَسباب بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ” موسیقی کی صنعت تمدن میں سب صنعتوں سے آخیر میں آتی ہے کیونکہ یہصنعت زندگی میں لطف پیدا کرنے والی ہے اور زندگی کے اسی گوشے میں چمکتی ہے جسے فراغت کہتے ہیں ۔ فراغت و دولت اسی وقت آتی ہے جب کوئی حکومت ترقی کا دور پورا کرنے کے بعد روبہ تنزل ہوتی ہے اور یہ فن تمدن میں آتے ہی سب سے پہلے ختم ہوجاتا ہے“ (صفحہ ۳۲۰) یہاں اسلامی تاریخ کے مختلف اَدوار میں موسیقی اور اس ’فن‘ سے وابستہ طبقہ کے بارے میں زیادہ مفصل تجزیے سے قطع نظر کرتے ہوئے علامہ ابن خلدون کی مذکورہ بالا رائے کی روشنی میں نہایت اعتمادکے ساتھ یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں میں فن موسیقی کو ملوکیت کے دورِ تعیش میں رواج ملا۔ ا س کی زیادہ تر پذیرائی اہل دربار تک ہی محدود رہی۔ یہ وہ فن تھا جواخلاقی تنزل کے نتیجے میں ترقی پذیر ہوتا ہے۔ لکھنوٴ، دہلی اور ہندوستان کے دیگر تہذیبی مراکز کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ مسلمانوں کے طبقہ اُمراء نے جب طوائف کے کوٹھے کو تہذیب ِمکتب کا درجہ دیا تو ان کے سیاسی اِقتدار کا سنگھاسن ڈول گیا۔ ہمارے عوام تو عجمی سلاطین کے شاہانہ اطوار کو تقریباً فراموش کرچکے ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ وہ اس ’ذوق‘ کے متحمل بھی نہیں ہوسکتے۔ مگر ہمارے ذرائع ابلاغ سے وابستہ ایک مخصوص طبقہ ایسا ہے جس میں عجمی سلاطین کی اَرواح حلول کرچکی ہیں اور یہ ’ارواح‘ ان کے اندر کبھی کبھار جوش مارتی ہیں ۔ غناء، سرور، رقص و موسیقی ہی اس گروہ کا ’حقیقی مذہب‘ ہے۔ گانے والوں اور گانے والیوں سے ان کی شیفتگی اور وارفتگی ایک والہانہ جنون کا انداز اختیار کئے ہوئے ہے۔ جتنی عقیدت و محبت ان کو ان نام نہاد فنکاروں سے ہے، ہمارے مشائخ عظام اور پیرانِ کرام بھی ان پر رشک کھائیں گے۔ ابھی حال ہی میں موسیقی کے ان دلدادگان کی اس جنوں خیزی کا بھرپور مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب ۲۳/ دسمبر ۲۰۰۰ء بمطابق ۲۶ رمضان المبارک فتورِ جہاں المعروف نورِ جہاں نے اس عالم فانی سے عالم ابدی کی طرف کوچ کیا۔ ” زندگی جھوٹ اورموت برحق ہے !“ نورجہاں نے اپنے آخری انٹرویو میں بالکل سچ کہا کہ ” زندگی جھوٹ ہے اور موت برحق ہے“ اگر اس پر یہ حقیقت بہت پہلے منکشف ہوجاتی تو وہ اپنا خاندانی پیشہ کبھی اختیار نہ کرتی، وہ محض اللہ وسائی ہی رہتی، نورجہاں بننا کبھی پسند نہ کرتی۔ نورجہاں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے والے ہمارے صحافیوں کو اس کے مذکورہ قول پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنا چاہئے۔ اگر ان کو بھی اس حقیقت کا اِدراک ہوجائے تو وہ فلمی عورتوں کے مبالغہ آمیز اور شہوت انگیز افسانے لکھ کر اپنے قلم کی حرمت کو کبھی پامال نہ کریں ۔ قلم ایک مقدس امانت ہے، اس کا تقدس قائم رکھنا ہر صاحب ِقلم کی ذمہ داری ہے…!! ٭ ٭