کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 88
غنائی ذخیرہ ان اصحابِ فن کی ادائیگی میں ہے کہ سننے والے پر وجد طاری ہوجاتا ہے۔ مصر کے قاری عنتر سعید کی فن میں مہارت کا یہ عالم ہے کہ ایک کلمہ یا آیت کو ایک نشست میں دس بار ادا کریں توہربار لہجہ کا زیر وبم دوسری ادائیگی سے مختلف ہوتا ہے۔ دوسری طرف فن قراء ت کے نامور ستارے قاری عبدالباسط کی اپنی آواز پر کنٹرول اور ادائیگی کی مہارت کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر وہ ایک آیت کو دس بار دہرائیں اوراس آواز کو میزان پر تولا جائے تو اس کی آواز کا زیروبم اور اِرتعاش میں ذرّہ برابر تبدیلی نہ ملے ۔
پاکستان میں ذوقِ قراء ت پر وان چڑھ رہا ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں گذشتہ رمضان میں مختلف مساجد میں نمازِ تراویح میں شریک ہو کر ہوا۔ گارڈن ٹاؤن میں جامعہ لاہو رالاسلامیہ کے تحت قاری ابراہیم میرمحمدی کی زیرنگرانی قرآن فیکلٹی اس ضمن میں گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہے، جہاں فن قرأت کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔ خود قاری ابراہیم کا شمار اس فن کے بین الاقوامی ماہرین میں ہوتا ہے۔ آپ قرآنِ مجید کی جملہ متواتر قراء ات کے عالم ہیں جو کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ خوبصورت آواز کے ساتھ خوبصورت اَلفاظ اور خوبصورت خیالات جمع ہوجائیں تو تب ہی غنا صحیح معنوں میں انسانی روح کو سرشار کرتا ہے اور یہی غنا ہی روح کی غذا کہلانے کا صحیح حقدار ہے نہ کہ نورجہاں کے بیہودہ فلمی گانے!…
افسوس کہ ان بیہودہ گانوں کو تو ’فن‘ قرار دے کر اس کی پذیرائی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی لیکن کلام الٰہی کی تلاوت کرنے والے نفوسِ مطہرہ جو فن ادا اور آواز پر کنٹرول میں ان سے کسی طور کم نہیں بلکہ انہیں مشق کے اس سے زیادہ مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے ، ان کے فن اور مہارت کو کسی قطار شمار میں نہیں لایا جاتا ، اُلٹا انہیں ’ملا‘ قرار دے کر ان کی بے توقیری کی جاتی ہے۔ ایک اسلامی مملکت میں قرآن کے خادموں سے یہ دوہرا معیار آخر ہمارے کونسے رجحانات کا عکاس ہے! ؟؟
اسلامی معاشرے میں موسیقی کا نفوذ
شہرہ آفاق مسلمان ما ہر عمرانیات و موٴرّخ علامہ ابن خلدون ’مقدمہ‘ میں لکھتے ہیں :
” اسلام سے پہلے عجمیوں کے دورِ حکومت میں قصبوں اور شہروں میں راگوں کا سمندر جوش مارا کرتا تھا۔ سلاطین عجم کی مجلسیں گویوں سے بھری رہتی تھیں اور وہ گانوں پر جانیں چھڑکاتے تھے۔ حتیٰ کہ شاہانِ فارس گویوں کی بڑی قدرومنزلت کیا کرتے تھے اور ان کی سرکار میں ان کا مرتبہ بلند ہوتا تھا۔ وہ ان کے گانوں کی مجلس اور اجتماعات میں شامل ہوا کرتے تھے اور خود بھی گایا کرتے تھے۔ ہر علاقے اور ہر ملک میں عجمیوں کا آج بھی یہی حال ہے“
(صفحہ ۳۱۷)
ابن خلدون کے مطابق عرب شروع میں صرف فن شاعری میں دلچسپی لیتے تھے۔ اَشعار میں عرب اپنے تاریخی اور جنگی واقعات اور نسبی شرف کی داستانیں دہرایا کرتے تھے۔ پر جب ان کا دورِ تعیش آیا اور ان پر خوش حالی چھا گئی کیونکہ اَقوام عالم کی دولت ان کے پاس آگئی تھی تو یہ عیش پرست بن گئے اور تعیش کی شادابیوں کی جھلک ان کے چہروں سے ٹپکنے لگی۔ علاوہ ازیں ان میں نوکر رکھنے کی نزاکت بھی آگئی اور ان پر فراغت کی جلوہ گری بھی چھا گئی۔ اب فارس و روم کے گانے والے حجاز میں جمع ہوگئے اور عرب کے لونڈی غلام بن گئے۔ یہ طنبور، بانسری اور دیگر باجوں سے گانے لگے اور عربوں نے ان کی آوازوں کے