کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 87
دربارِ رقص و سرور کو پروان چڑھانے کے عظیم مراکز تھے۔ انہوں نے گویوں کی مصنوعی شان بڑھا کر کسی کو ’خان بہادر‘ تو کسی کو ’فلاں بیگم‘ بنا دیا۔ گویوں کو سرپرستی کرنے والے اسی طبقہ نے اللہ رکھی کو ملکہ ترنم بنا دیا۔ نظریہٴ حیات اور حکمرانوں کے طرزِعمل کا موسیقی کے فروغ و زوال پر کتنا اثر پڑتا ہے۔ اسے شاہِ ایران کے دور کی گائیکہ’گوگوش‘ کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس گلوکارہ کوایران میں اس قدر مقبولیت حاصل تھی کہ اسے ایران کی ’نورجہاں ‘ کہا جاسکتا ہے۔مگر جب ایران میں آیت اللہ خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں انقلاب آیا، تو اس پر پابندی عائد کردی گئی۔ چند ماہ پہلے ۲۲ سال کے بعد یہ گلوکارہ دوبارہ منظر عام پر آئی ہے۔ اب اس کے چاہنے والے مرکھپ گئے تھے، خود اس کی شکل پہچانی نہیں جاتی تھی۔ اسے مایوسی کے عالم میں امریکہ کا سفر اختیار کرنا پڑا ہے۔ اگر پاکستان میں اسلام پسندوں کی حکومت قائم ہوتی تو نورجہاں جیسی لچرگانے والیوں کو یہاں سرچھپانے کے لئے بھی جگہ نہ ملتی۔ سکندر مرزا، یحییٰ خان، ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو جیسے سیکولر عورت پرست حکمرانوں کی سرپرستی میں ’نورجہانیں ‘ ہی پروان چڑھ سکتی ہیں ۔ جس اسلامی مملکت کو جدید دور میں شاہ فیصل جیسے دین دار، خداترس اور اسلام پسند اُمت ِمسلمہ کا حقیقی درد رکھنے والے بادشاہ کی حکمرانی نصیب ہوئی، اس معاشرے میں قرآن مجید کے ’قراء ‘ کی نسلیں پروان چڑھی ہیں ۔ سعودی عرب میں گھر گھر، گلی گلی، شیخ عبدالرحمن السدیس، قاری ایوب یوسف، قاری ابراہیم الاخضر ، قاری صدیق منشاوی جیسے قراء کی آواز میں تلاوتِ قرآن سے فضائیں گونجتی ہیں ۔ اس معاشرے میں کسی نورجہاں کے ترقی پانے کا اِمکان نہیں ہے۔ مصر، جہاں قدرے سیکولر گروہ برسراقتدار ہے، وہاں بھی صورت یہ ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر عام طور پر قراء کو ہی بلایا جاتا ہے۔ مصر میں قاری عنتر سعید مسلم، قاری عبدالباسط، قاری محمود خلیل حصری اور قاری صدیق منشاوی جیسے عظیم قراء نے جنم لیا۔ ہمارے ہاں سیکولر طبقہ فن موسیقی کی باریکیوں پر جان چھڑکتا ہے، خیال گائیگی، ٹھمری، دھرپد، دپیک… نجانے کتنے راگ ہیں ، کوئی کچے راگ کا ذکر کرتا ہے تو کوئی پکے راگ پر جان چھڑکتاہے۔ مگر اسلامی دنیا میں قرآن مجید کی سات مستند لہجوں میں قراء ت (سبعہ وعشرہ قراء ات) ایک عظیم الشان فن جیتی جاگتی مثال ہے۔ سعودی عرب میں فن قراء ت میں پی ایچ ڈی کرنے والے افراد سینکڑوں میں مل جائیں گے۔ قاری ایوب، قاری سعود الشریم، قاری عبدالرحمن السدیس، جن کی آواز میں پورے قرآن مجید کے کیسٹوں کا سیٹ بازار میں عام ملتا ہے او رپاکستان کے حجاج کرام بھی تحائف کے طور پر لاتے ہیں ، ان سب قراء حضرات کی اپنے فن میں پختگی برسہابرس کی مرہونِ منت ہیں ۔ سبعہ قراء ات میں جولہجے مروّج ہیں ، ان میں حفص، نافع، ابن کثیر اور ورش کی روایات کو تجوید وقراء ت کا ذوق رکھنے والوں میں بے حد مقبولیت حاصل ہے۔ قرآنِ مجید کے عظیم قراء کی سحرانگیز آواز میں تلاوتِ کلام مجید سننا محض نیکی ہی نہیں ہے، ذوقِ غنا کی تسکین کی اس میں بے پناہ قوت و تاثیر موجود ہے۔ فن کی نفاستوں ، باریکیوں او رلطافتوں کا ایسا پرلطف