کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 86
زندگی بھر کی ’عطا‘ سمجھنے والا جمال پرست منٹو اگر کم سن قاری جواد فروغی کو کبھی سن لیتا تو اسے قلم پھینکنا پڑتا کیونکہ اس کے خداداد صوتی جمال کو لفظوں کے پیکر عطا کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ جواد فروغی کون ہے؟… جواد سرزمین ایران میں جنم لینے والا وہ نوجوان تھا جس نے بارہ سال کی عمر میں قرآن مجید کی قراء ت کے ذریعے کروڑوں سننے والوں کو تڑپا تڑپا کر رکھ دیا۔ وہ جب اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کرتلاوتِ قرآن پاک کرتا تو اس کے گھر کے سامنے سننے والوں کے رش کی وجہ سے ٹریفک جام ہوجاتی۔ وہ جب ایک لمبے سانس میں بے حد وجدانی آواز میں کئی آیات کی تلاوت کرنے کے بعد وقفہ کرتا تو سننے والے اپنے آپ میں نہ رہتے اور کافی دیر تک فضا ” واہ واہ ، سبحان اللہ“ کے وجدانی نعروں سے گونجتی رہتی۔ قلبی قساوت کے شکار سامعین کی آنکھیں بھی وفورِ جذبات سے چھم چھم ہوجاتیں ۔ ایسے سریلے لحن، ملکوتی گونج کو سن کر گمان ہوتا کہ اس نوجوان کے گلے سے نور برس رہا ہے۔ قرآنِ مجید ایک نور ہے۔ جواد فروغی کی سحر انگیز آواز میں ا س کی قراء ت ’نورعلیٰ نور‘ محسوس ہوتی تھی۔ اس بارہ سالہ قاریٴ قرآن کو ایران میں اس قدر پذیرائی ملی کہ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنائی کے جلسوں کی رونق اس کے بغیر اُدھوری سمجھی جانے لگی۔ نورجہاں کی گائیکی کا دورانیہ ستر برس پر محیط ہے، مگر جواد کو جب کسی شقی القلب نے قتل کیا تو اس کی عمر بڑی مشکل سے اٹھارہ برس ہوگی۔ وہ آج بھی اسلامی دنیا میں قراء ت کا ذوق رکھنے والوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے۔ اس کی قراء ت کا جمال اچھے اچھے سنگ دلوں کے جسم و جاں کو پگھلا کر رکھ دیتا ہے۔ نورجہاں کو ’ملکہ ترنم‘ کہا جاتا ہے، مگر جب اس کا جسد ِخاکی قبر میں اتارا جارہا تھا تو ایک سو افراد بھی اس کی آخری رسومات میں شریک نہ ہوئے۔ مگر قاری جواد کا جنازہ فقید المثال تھا، لاکھوں افراد نے مافوق الطبیعاتی آواز رکھنے والے اس نوجوان کی آخری رسومات میں شریک ہونے کو سعادت سمجھا۔ پاکستان میں بھی قاری جواد کے کیسٹ دستیاب ہیں مگر نورجہاں کے شہوت انگیز ترنم سے کسی کو فراغت ملے تو اس طرف بھی گوشِ سماعت وا کرسکے۔ ہمارے کالم نگار نورجہاں کا موازنہ عرب دنیا کی معروف گلوکارہ اُمّ کلثوم سے کرتے ہیں ۔ بلاشبہ اُمّ کلثوم ایک خوبصورت آواز کی مالک مغنیہ تھی، اس کے سوز بھرے گیت لوگ آج بھی سنتے ہیں ، اگر ان دونوں مغنیات کا موازنہ ان کوملنے والی پذیرائی کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے تودرست نہیں ہے۔ پذیرائی کے اعتبار سے عرب دنیا میں نورجہاں کی حریف اُمّ کلثوم نہیں بلکہ قاری عبدالباسط ہے۔ عرب دنیا میں قاری عبدالباسط کی آواز نے جو جادو جگایا، وہ جادو اس کے مرنے کے ۱۲/ سال بعد بھی سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ قاری عبدالباسط نے اپنے ناقابل موازنہ فن قراء ت سے پذیرائی ، مقبولیت اور عوامی محبت کے جو ریکارڈ قائم کئے، ابھی تک کوئی دوسرا اس کا حریف نہیں ہوسکا۔ کہا جاتاہے: الناس علی دين ملوكهم ” جو مذہب بادشاہوں کا ہوتا ہے، عوام بھی اسے اپناتے ہیں “ یہ مقولہ موسیقی اور غنا کی پذیرائی پر بھی فٹ بیٹھتا ہے۔ سیکولر حکمران، سیکولر معاشرے ہی پروان چڑھاتے ہیں ۔ جن بادشاہوں کے دلوں سے خوفِ خدا اُٹھ جائے، ان کے دربار طوائفوں ، بھانڈوں ، طبلہ بازوں اور گویوں کے اَڈے بن جاتے ہیں ۔ ہندوستان میں لکھنوٴ، دہلی، پٹیالہ وغیرہ کے حکمرانوں اور راجاؤں کے