کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 85
ایسا مشغلہ صریح کفر کے درجہ میں آئے گا اور اس کی تائید شانِ نزول کی روایتوں سے بھی ہوتی ہے۔ جاہلیت میں ایک شخص نضر بن حارث نامی تھا۔ آس پاس کے ملکوں کا سیاح، وہاں سے جاہلی لٹریچر کی اعلیٰ درجہ کی کتابیں لاتا، انہیں لاکر اہل عرب کو سناتا۔ ایران کے بہادروں کے افسانے، حیرہ کے بادشاہوں کے قصے پڑھ کر سناتا اور کہتا: جی ان میں لگاؤ، قرآن کے وعظ میں کیا رکھا ہے۔ اس سے بڑھ کر ممنوع و ناجائز وہ سارے کھیل تماشے ہوں گے جو تہذیب و تمدن نے خدا اور آخرت کی طرف سے غافل کرنے کے لئے گھڑ لئے ہیں ۔ سینما، تھیٹر، پکچر، گیلری وغیرہ نیزادبیات، افسانہ و شعر کا وہ بہت بڑا ذخیرہ جو آج ’آرٹ‘ کے پرفخر کارنامہ کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے۔مولانا اشرف علی تھانوی نے فرمایا کہ اس میں ہر اُس گانے کی حرمت آگئی جو عملاً دین سے غفلت کی طرف لے جانے والا ہو۔ (تفسیر ماجدی)
متعدد احادیث میں گانا بجانا اور موسیقی وغیرہ کی ممانعت وارد ہوتی ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور دورِ حاضر کے علماء میں سے مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کی اس موضوع پر کتاب راقم الحروف کی نگاہ سے گذری ہیں جس میں کتاب و سنت سے دلائل کی روشنی میں موسیقی کو خلافِ شرع فعل ثابت کیا گیا ہے۔ درج ذیل احادیث پر غور فرمائیے او رپھر گانے بجانے کے متعلق اسلام کے احکامات کا تعین خود کیجئے!
۱۔ ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسولِ اکرم کو فرماتے سنا کہ میری اُمت میں سے کچھ گروہ اٹھیں گے جو زنا کاری اور سازباجوں کو حلال سمجھیں گے۔ (بخاری)
۲۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے ساز باجے کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔
۳۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” میں سازباجے اور ڈھولک کو ختم کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔“
قارئین کرام! قرآن و سنت کی مندرجہ بالا ہدایات و اَحکام کی روشنی میں گانے بجانے اور فلموں میں کام کرنے کی اسلامی معاشرے میں حیثیت کا تعین خود کرلیجئے۔ یہ ہر اعتبار سے مذموم افعال ہیں جن کو تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور ان افعال میں مشغول افراد کو ’معزز و محترم‘ صرف وہی افراد قرار دے سکتے ہیں جن کا اَخلاقی طور پر دیوالیہ نکل چکا ہے۔ اگر صحیح معنوں میں اسلامی معاشرہ قائم ہوجائے تو نورجہاں جیسی گانے والیوں اور فسق و فجور کی زندگی بسر کرنے والی عورتوں پر شرعی حدود کو نافذ کیا جائے۔
فن قراء ت اور فن موسیقی
سعادت حسن منٹو نور جہاں کے ’فن‘ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے:
” مجھے اس کی شکل و صورت میں ایسی کوئی خاص چیز نظر نہیں آئی، ایک فقط اس کی آواز قیامت خیز تھی۔ سہگل کے بعد میں نورجہاں کے گلے سے متاثر ہوا۔ اتنی صاف شفاف آواز، مرکیاں اتنی واضح، کھرچ اتنا ہموار، پنچم اتنا نوکیلا۔ میں نے سوچا یہ لڑکی چاہے تو گھنٹوں ایک سر پرکھڑی رہ سکتی ہے، اسی طرح جس طرح بازی گرتنے ہوئے رسے پر بغیر کسی لغزش کے کھڑے رہتے ہیں “
یہ غالباً خوبصورت ترین جملے ہیں جو اُردو زبان میں لکھنے والے کسی ادیب نے کسی بھی مغنیہ کی تعریف میں ادا کئے ہیں ، مگراے کاش! فلمی اسٹوڈیو میں عمر گنوا دینے والا اور طوائفوں کے تلوے چھونے کو