کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 84
شامل ہیں ۔ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی گروہ یا فرد گانے بجانے کو ہی زندگی کا مستقل شغل بنالے۔ اسلامی تاریخ کے شروع کے اَدوار میں عام معاشرہ تو ایک طرف حکمرانوں کے درباروں میں بھی اس طرح کے پیشہ ور گانے والوں یا گانے والیوں کا وجود نہیں ملتا۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر لہوولعب اور فواحش سے کنارہ کشی کی تعلیم دی گئی ہے۔ ایک جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
” کہہ دیجئے (اے نبی) بے شک میرے ربّ نے حرام کیا ان تمام فحش باتو ں کو جو علانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں “…
سوره لقمان میں ارشاد ہوتا ہے:
” اور کوئی انسان ایسا بھی ہے جو اللہ سے غافل کرنے والی باتیں (لہوالحدیث) خرید کرتا ہے تاکہ اللہ کی راہ سے بے سمجھے بوجھے دوسروں کو گمراہ کرے اور اس راہ کا مذاق اُڑائے۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے ذلت کا عذاب ہے“ (ترجمہ: مولانا عبدالماجد دریا آبادی)اس آیت ِمبارکہ میں ’لہوالحدیث‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ترجمہ ’کلامِ دلفریب‘ کیا ہے، جبکہ مولانا محمد جو نا گڑھی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر ابن کثیر کے ترجمے میں ’لھو الحدیث‘ کا مطلب ’لغو باتیں ‘ تحریر کیا ہے۔ علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں :
” یہاں بیان ہورہا ہے ان بدبختوں کا جو کلامِ الٰہی کو سن کر نفع حاصل کرنے سے باز رہتے ہیں اور بجائے اس کے گانے بجانے ، باجے گاجے، ڈھول تاشے سنتے ہیں ۔ چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” قسم اللہ کی، اس سے مراد گانا اور راگ ہے۔ ایک اور جگہ ہے کہ آپ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے تین دفعہ قسم کھاکر فرمایا کہ اس سے مقصد گانا اور راگ راگنیاں ہیں ۔ یہی قول حضرات عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ، مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر وغیرہ کا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ لغو بات خریدنے سے مراد گانے والی لونڈیوں کی خریداری ہے۔ چنانچہ ابن حاتم وغیرہ میں نبی اکرم کا فرمان ہے کہ گانے والیوں کی خرید و فروخت حلال نہیں اور ان کی قیمت کا کھانا حرام ہے“ (تفسیر ابن کثیر: جلد چہارم، صفحہ ۱۸۸)
سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے بارے میں اپنے تفسیری نوٹ میں لکھتے ہیں :
” لہو الحدیث، یعنی ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کرکے ہر دوسری چیز سے غافل کردے۔ ان کا اطلاق بری، فضول اور بیہودہ باتوں پر ہی ہوتا ہے۔ مثلاً گپ، خرافات، داستانیں ، افسانے، گانا بجانا اور اس طرح کی دوسری چیزیں ، لہو الحدیث خریدنے کا مطلب بھی یہی لیا جاسکتا ہے کہ وہ شخص حدیث ِحق کو چھوڑ کر حدیث ِباطل کو اختیار کرتا ہے او رہدایت سے منہ موڑ کر ان باتوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن میں اس کے لئے نہ دنیا میں کوئی بھلائی ہے نہ آخرت میں ۔“
مولانا عبدالماجد دریا آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ” لہو الحدیث سے مراد عموماً غناء (موسیقی) سمجھی گئی ہے“
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے:
” لہو الحدیث سے مراد گانا اور اس کے مشابہ چیزیں ہیں ۔ گویا ہر بیکار، غیر مفید مشغلہ اس کے تحت میں داخل ہے جو حق کی طرف سے غفلت، بے رغبتی پیدا کرنے والا ہو، اس کے تحت میں آجاتا ہے “
آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہاں ذکر ایسے لہو و لعب کا ہے جو دین حق سے روکنے والے ہوں او ران کا اثر دوسروں تک متعدی ہو رہا ہو، بلکہ دین حق کی تحقیر دلوں میں پیدا کرنے والے ہوں ، ظاہر ہے