کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 83
میں مبتلا رہنے والی گمراہ عورت کی قبر کسی بھی طور پر ’طواف گاہ ‘ نہیں ہوسکتی۔ یہی عباس اطہر الحمرا ہال کو نورجہاں کے نام کرنے کی مہم بھی چلاتے رہے ہیں ۔ موسیقی اور سیکولر سوچ ہمارے ذرائع اَبلاغ پر چھایا ہوا سیکولر اور بے دین طبقہ بڑی فنکارانہ چابکدستی سے ہماری دینی اور سماجی اَقدار کو بدلنے کی مہم جوئی میں مصروف ہے۔ ان لوگوں نے نہایت تسلسل سے پاکستانی معاشرے سے ’کلچر‘ کامفہوم بدلنے کے لئے جدوجہد کی ہے۔ آج صورت یہ ہوگئی ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے اَفراد بھی کلچر کا وہی مفہوم سمجھتے ہیں جو انہیں رقص و سرور کے دلدادہ طبقہ نے سمجھایا ہے۔ آج کل کلچر سے بالعموم رقص و سرور، ناچ گانا، گیت مانا، اَداکاری، موسیقی، ایک خاص وضع قطع مراد لی جاتی ہے، غرضیکہ جو جو باتیں ماضی میں ’لچر پن‘ سمجھی جاتی تھیں ، آج عین کلچر کا روپ دھار چکی ہیں ۔ یہاں موقع نہیں کہ فلاسفرز، ماہرین عمرانیات اور اہل علم نے ’کلچر‘ کی جو تعریف کی ہے، اس کو بیان کیا جائے، راقم الحرو ف نے مشرق و مغرب کے جید سکالرز کا کلچر کے متعلق لٹریچر دیکھا ہے، کسی نے بھی کلچر کی وہ تعریف پیش نہیں کی ہے، جس کا تصور ایک مخصوص طبقہ ہمارے ہاں پھیلا رہا ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خطبات میں ایک خطبے کا نام ’اسلامی کلچر‘ رکھا ہے، وہاں بھی انہوں نے کلچر کا بے حد عالمانہ اور افضل تصور پیش کیا ہے، ان کے نزدیک فن اسلامی کلچر کا ایک بھرپور اظہار ہے۔ ڈاکٹر جمیل احمد جالبی اور فیض احمد فیض نے ’پاکستانی کلچر‘ کے نام سے کتابیں تحریر کی ہیں ، وہاں بھی تہذیب و ثقافت کا مفہوم آپ کو بہت وسیع ملے گا۔ موسیقی اور اسلامی تعلیمات فلمی صنعت سے وابستہ افراد فن کے نام پر تعفن، ثقافت کے نام پر کثافت اور کلچر کے نام پر لچرپن کو فروغ دے رہے ہیں ۔ مگر ہمارے ذرائع ابلاغ اس طبقہ کے پیشہ کو اس قدر مبالغہ آمیز طریقے سے پیش کر رہے ہیں گویا اس سے بہتر لائق عزت کوئی دوسرا فن نہیں ہے۔ کافی عرصہ سے یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ہمارے اخبارات میں موسیقی اور گانے بجانے کے متعلق اسلامی اَحکامات کو پیش نہیں کیا جارہا۔ اگر کوئی صحافی کبھی اس موضوع پر اظہار خیال کرنا بھی چاہے تو اسے ’بنیاد پرست‘ کہہ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ نظریاتی اعتبار سے تو ہم اسلام کو زندگی کے ہر شعبے کیلئے ذریعہ راہنمائی سمجھتے ہیں ، مگر عملی طور پر ہمارے کان موسیقی کے اس قدر رسیا ہوچکے ہیں ، کہ اس کے خلاف کسی قسم کی بات سننے کے لئے ہم بالکل آمادہ نہیں ہیں ۔ ہماری منتخب اخلاقیات کا ہی شاخسانہ ہے کہ ہم اسلام کی محض ان تعلیمات کو قبول کرتے ہیں جو ہمارے نظریات کی تائید کرتی ہیں ۔ ہمارے ذرائع ابلاغ لہو و لعب کااس قدر پرچار کر رہے ہیں کہ لہوو لعب کے خلاف کسی بات کو شائع کرنا انکے نزدیک عوام کو ایک ’جائز تفریح‘ سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ جس طرح کی موسیقی اور گانے بجانے کا رواج ہمارے معاشرے میں عام ہے، علماءِ کرام، محدثین اور مفسرین نے کتاب و سنت کی روشنی میں اسے بالاتفاق حرام قرار دیا ہے کیونکہ یہ فواحش و منکرات میں