کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 82
کے گناہوں سے تو ایک عالم واقف ہے۔ مگر موصوف کو چاہئے تھا کہ وہ نورجہاں کی نیکیوں کی فہرست بھی پیش کرتے جس سے ظاہر ہوتا کہ اس نے نیکی کرنے کا بھی ’حق‘ ادا کردیا۔ یہ کالم نگار جن کا نام نامی اجمل نیازی ہے، اپنی ملحدانہ فکر کے اظہار میں نورجہاں سے بھی زیادہ بے باک واقع ہوئے ہیں ، لکھتے ہیں :
” بے حساب شخصیت کی عورت کا اگلے جہاں بھی حساب کتاب نہ ہوگا۔ ذرا یہ تو دیکھو کہ وہ کس برکتوں ، رحمتوں ، بخششوں والی رات کو اپنے خالق کے حضور حاضر ہوئی۔ وہ گاتی تھی تو حاضری اور حضوری کا فرق مٹ جاتا تھا۔ کل رات تلاوت ہوتی رہی اور نورجہاں کے گانے ہوتے رہے۔ کوئی کہہ رہا تھا ۔ آج کتنی مبارک رات ہے، آؤ نورجہاں کے لئے دعا کریں اور اس کے گیت سنیں ، وہ سیدھی جنت میں گئی ہوگی۔ اسے سن کر لوگ جنت میں پہنچ جاتے تھے“
ایک سچے مسلمان کے لئے ان کلمات کا پڑھنا ہی سخت اذیت ناک ہے، مگر ہمارے سیکولر کالم نگار ذرا برابر رک کر نہیں سوچتے کہ ان کے یہ کلمات کفر و شرک کی غلاظت سے کس قدر لتھڑے ہوئے ہیں ۔ لیلةالقدر کی رات کی جانے والی تلاوت اور نورجہاں کے لہوو لعب کو ہوا دینے والے گانے سننے کو برابر قرار دینا ایک ایسی ناپاک اور زندیقانہ جسارت ہے جس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ مسلمانوں کی تکفیر کرنا ایک ناپسندیدہ عمل ہے، مگر اس طرح کی باتیں کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتیں ۔ اگر ایسے کلمات پڑھنے کے بعد ایک عالم دین ایسے کالم نگار کے متعلق اسلام کے دائرے سے خارج قرار دینے کا فتویٰ دے، تو یہ عین دینی حمیت کا تقاضا سمجھا جانا چاہئے!!
یہ نیازی صاحب نورجہاں کے خاص ’دیوانے‘ ہیں ۔ ۲۱/ جنوری ۲۰۰۱ء ان کا ایک اور کالم شائع ہوا جس کا عنوان تھا ” نورجہاں کی قبر کو خطرہ ہے!۔‘‘ اس کالم میں موصوف نے راقم الحروف کے مذکورہ مضمون کے حوالے سے بے حد وجدانی کیفیت میں لکھا: ” صدیقی صاحب خود یہ اِعزاز (تکفیری فتویٰ) کیوں نہیں حاصل کرتے…“ انہوں نے ہماری اطلاع کے لئے یہ بھی تحریر کیا کہ جب کسی پر کفر کا فتویٰ لگتا ہے تو انہیں روحانی مسرت ہوتی ہے۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ نیازی صاحب جیسے نورجہاں کے دیوانے مزید انتظار نہ کرسکے، ۲۱ جنوری ۲۰۰۱ء کو ہی گلبرگ کے گراؤنڈ میں نورجہاں کا چہلم مناکر دم لیا، حالانکہ اس کو مرے ہوئے ابھی ۲۷ دن ہوئے تھے۔
۲۷/ دسمبر ۲۰۰۰ء کے نوائے وقت میں ” برمزارِ ما غریباں “ کے عنوان سے عباس اطہر صاحب کا کالم شائع ہوا جس میں انہوں نے ’کنکریاں ‘ پھینکنے کی روایت برقرار رکھی۔ا س مرتبہ یہ کنکریاں خانہٴ کعبہ کے رخ پر پھینکی گئی تھیں ۔ عباس اطہر نے بھی اپنے کالم میں اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ نورجہاں کو لاہور میں دفن کیا جانا چاہئے تھا تاکہ اہل لاہور اس کی قبر کو’طواف گاہ‘ بنا سکتے۔ عین ممکن ہے انہوں نے نورجہاں جیسی گانے والی عورت کی قبر کے لئے ’طواف گاہ‘ کی ترکیب فکاہی انداز میں لکھی ہو، مگر اس میں کعبة اللہ کی صریحاً توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ عباس اطہر اشتراکی اور سیکولر فکر رکھنے والے کالم نگار ہیں ، انہیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ایک اسلامی مملکت کے باشندے ہیں جس کا سرکاری مذہب آئین کی رو سے اسلام ہے۔ کعبة اللہ کی حرمت مسلمانوں کے مقدس شعائر میں شامل ہے۔ ایک صدا فروشی کے دھندے