کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 81
۵۰۰۰ الفاظ پر مبنی کالم لکھنا اپنی ’جمال پسندی‘ کا عین تقاضا سمجھتے ہیں ۔ موصوف نے نورجہاں پر واقعی بے نیاز انہ انداز میں کالم لکھا ہے۔ (۲۵ دسمبر ، روزنامہ ’دن‘) ان صاحب نے اپنے کالم کا عنوان رکھا: “ وہ سیدھی جنت میں گئی ہوگی!” اگر نورجہاں سے نفرت کرنے والا کوئی اپنے کالم کا عنوان رکھتا: “ وہ سیدھی جہنم میں گئی ہوگی!” تو سیکولر طبقہ الفاظ کی لاٹھیاں اس پربرساتا، اور واقعی کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس طرح کا دعویٰ کرے۔ مگر یہ صاحب کس قدر جسارت سے اپنی غیب دانی کا اعلان کر رہے ہیں ۔ معلوم ہوتاہے کہ خدا سے انہیں براہِ راست ہم کلامی کا شرف حاصل ہے، جو اتنا بڑا دعویٰ وہ اس دھڑلے سے کر رہے ہیں ۔ موصوف نے اپنے کالم میں سخن سازی او رمبالغہ آمیزی کے تمام ریکارڈ توڑنے کی کوشش کی ہے، لکھتے ہیں :
” وہ جمال اور کمال کی انوکھی تصویر تھی، وہ دکھائی بھی اچھی دیتی تھی، سنائی بھی اچھی دیتی تھی۔ کچھ عورتیں مردوں جیسی ہوتی ہیں ۔ وہ مردوں سے بڑھ کر تھی۔ عورتیں عشق کرتی ہیں ، مگر کہلاتی معشوق ہی ہیں ۔ نورجہاں دھڑلے کی عاشق عورت تھی، ہم کئی عورتوں کے قائل ہیں ، ان کے سائل بھی ہیں ، ان کی طرف مائل بھی ہیں ۔ مگر دنیا میں گھائل کرنے والی عورتیں کم کم ہوتی ہیں ۔ اور نورجہاں جیسی عورتیں تو کم سے بھی کم ہیں “
فاضل کالم نگار نے ہم قافیہ تعریفی تراکیب کی بھرمار سے ثابت کردیا ہے کہ واقعی وہ ’گھائل‘ ہیں ۔ اور کسی عورت کے ’کمال کی انوکھی تصویر‘ بننے کے لئے ضروری ہے کہ وہ’دھڑلے کی عاشق عورت‘ ہو۔ اگر اس میں یہ ’خوبی‘ نہیں تو وہ درجہ کمال کو نہیں پہنچ سکتی۔ موصوف نے کمال کی اس انوکھی تصویر (نورجہاں ) کا ایک اور وصف بھی بیان کیاہے، لکھتے ہیں : ” پھر جو نورجہاں کو بھا گیا، وہ بھاگ نہ سکا، ا س نے ثابت کیا کہ مرد بھی داشتہ بنائے جاسکتے ہیں ۔ اس نے عورت ہونے کا حق ادا کردیا“
نورجہاں کے شہوت انگیز گانے سن کر ان صاحب پر کبھی وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اس کا اظہار یوں کرتے ہیں ۔ ” سنناہٹ، سرسراہٹ، کسمساہٹ، تھرتھراہٹ اور نجانے کس کس آہٹ بدن میں سنائی دیتی ہے“ اسی طرح کے ادیبوں کے بارے میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا ع آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار !
عام طور پر تو لوگ نورجہاں کوملکہ ترنم ہی کہتے ہیں مگر یہ کالم نگار نہیں مانتے۔ وہ بضد ہیں : ” وہ صرف ملکہ ترنم نہ تھی، وہ ملکہ بھی تھی۔ اسکی حکومت دلوں سے دلوں تک، جہانوں سے جہانوں تک تھی“ (استغفر اللہ) …قرآن مجید میں تو یہ بات اللہ تعالیٰ کے لئے بیان کی گئی ہے کہ اس کی حکومت تمام جہانوں پرحاوی ہے۔ مگر ایک گانے والی عورت کے جسمانی و صوتی جمال کے گھائل ملحد کالم نگار کی خرافات نگاری ملاحظہ ہو۔ نور جہاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گناہوں کے ارتکاب میں بہت بے باک اور جری تھی۔ کسی کا گناہوں میں اسطرح جری ہونا گمراہی او رضلالت کی علامت ہے مگر ایک باتونی کالم نگار کچھ اور ہی سمجھتا ہے : ” ہم آدھے ادھورے ادھ موئے لوگ نہ نیکی کرسکے جس طرح نیکی کرنے کا حق ہے۔ ہم نہ گناہ کرسکے جس طرح گناہ کرنے کا حق ہے۔ یہ دونوں کام نورجہاں نے اس طرح کئے کہ انہیں کارنامہ بنا دیا“… یہ ہذیان گویائی کی انتہا ہے کہ موصوف کے نزدیک بے اندازہ گناہوں کا ارتکاب بھی ایک ’کارنامہ‘ ہے۔ نورجہاں