کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 80
اثرات ہیں ۔ چونکہ ہندو مذہب میں موسیقی کو عظیم فن اور نہایت قابل ستائش ’عبادت‘ کا درجہ دیا جاتا ہے، اس لئے یہ طبقہ بھی موسیقی اور گانے بجانے کو ویسی ہی اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر شروع شروع میں سیکولر اور بے دین اَفراد نے قبضہ کرلیا کیونکہ شرفا ٹیلی ویژن جیسے اداروں کی ملازمت کو اپنے سماجی وقار کے منافی سمجھتے تھے۔ اِدارے اپنے اندر کام کرنے والے افراد کی سوچ کا پرتو ہوتے ہیں ۔ ٹیلی ویژن یا ہمارے ذرائع ابلاغ جو کچھ پیش کرتے ہیں ، ضروری نہیں ہے کہ وہ قوم کے حقیقی عقائد و اَفکار کا صحیح عکس ہوں بلکہ زیادہ تر یہ ان اِداروں میں کام کرنے والے افراد کی سوچ کا ہی پرتو ہوتے ہیں ۔ ٹیلی ویژن ایک قومی اِدارہ ہے مگر ایک مخصوص طبقہ اسے اپنی سوچ کی تشہیر کے لئے غلط استعمال کرتا ہے۔ اسلام نے رنگ و نسل ،دولت اور اختیار، پیشہ اور فن کی بجائے نیکی اور تقویٰ کو ہی بزرگی، احترام اور وقار کی بنیاد قرار دیا ہے۔ قرآنِ مجید میں واضح ارشاد ہے ﴿ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰکُم ْ﴾ ” تم میں سے اہل تقویٰ ہی اللہ کے نزدیک قابل تکریم ہیں “ مگر ہمارے ذرائع ابلاغ نے اہل مغرب کی بھونڈی تقلید کے جوش میں احترام و اِکرام کے جو نئے معیارات وضع کرلئے ہیں ، اس میں تقویٰ کی بجائے فسق و فجور اورلہو و لعب کو ہی اصل وجہ ِامتیاز سمجھ لیا گیا ہے۔ کالم نگاروں کی سخن سازیاں نورجہاں کی موت کے بعد کالم نگاروں میں سخن سازی کانہ ختم ہونے والا مقابلہ جاری ہے۔ کوئی اسے عظیم قومی سانحہ قرار دے رہا ہے۔ کسی کے نزدیک سر کی دنیا اداس ہوگئی ہے۔ کوئی صاحب نورجہاں کو لاہور میں دفن نہ کئے جانے پر خفگی کا اظہار کر رہے ہیں ، بعض نورجہاں کی قبر عوام کے لئے زیارت گاہ اور طواف گاہ بنانے کی لغو تجاویز پیش کر رہے ہیں ۔ ایک صاحب کو یہ گلہ ہے کہ ملکہ ترنم نورجہاں کو ملکہ نور جہاں کے مقبرے میں دفن کیوں نہیں کیا گیا۔ کالم نگاروں کا ایک گروہ تو بے حد اصرار کے ساتھ یہ فتویٰ صادر کرچکا ہے کہ نورجہاں مرنے کے بعد سیدھی جنت میں چلی گئی ہے۔ اس فتویٰ کی بنیاد وہ یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ وہ ۲۷ رمضان المبارک کی رات قبر میں اُتری، لہٰذا اب اس کے لئے ’جنت‘ میں جانا یقینی ہوگیا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اہل عقل و دانش اور صاحب ِتحقیق سمجھتے ہیں ، مگر ان میں سے کسی نے اپنے فتویٰ کے ثبوت میں کسی حدیث کا حوالہ دینا ضروری نہیں سمجھا۔ نہ ہی ان میں سے کسی نے قرآنِ مجید کی اس آیت پر توجہ دینے کی زحمت گوارا کی ہے جس میں ’لھوالحدیث‘ کے خریداروں کے لئے دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ راقم الحروف نے اپنے مذکورہ بالامضمون میں ایک کالم نگار کے بارے میں جو تبصرہ تحریر کیا تھا، اس کے اِقتباسات ’محدث‘ کے قارئین کے لئے یہاں دوبارہ پیش کئے جارہے ہیں : ” روزنامہ ’دن‘ کے ایک مستقل کالم نگار جو باریش بھی ہیں اور پگڑ پوش بھی۔ موصوف اپنے نام کے اعتبار سے ’بے نیازیاں ‘ کے عنوان سے کالم نگاری فرماتے ہیں ۔ فلمی اداکاراؤں کے متعلق موصوف اپنے دل میں ایک خاص گوشہٴ جمال رکھتے ہیں ۔ اگر کبھی خوبی ٴ قسمت سے کسی فلمی اداکارہ سے پانچ منٹ کی ملاقات ہوجائے، تو وہ ’موصوفہ‘ کے ساتھ اس جمالیاتی ملاقات کے حوالہ سے