کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 8
سمجھتے ہیں ۔
ڈاکٹر سرگوکل چندنارنگ تقسیم ہند سے قبل حکومت ِپنجاب میں لوکل گورنمنٹ کے وزیرتھے۔ وہ اپنی انگریزی تصنیف ” ٹرانسفرمیشن آف سکھ ازم“ میں بسنت میلے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” … فیصلہ سنا دیا گیا اور فوراً ہی لاہور کے عین مرکز میں تمام ہندو آبادی کی آہوں اور بددعاؤں میں شریف لڑکے کا سرقلم کردیا گیا۔ اس کی کریاکرم میں سب امیر وغریب شامل ہوئے اور اس کی راکھ لاہور کے مشرق میں چار میل دور دَبا دی گئی، جہاں اس کی یادگار ابھی تک قائم ہے جس پر ہر سال بسنت پنچمی کے روز جو اس کی شہادت کا دن ہے، میلہ لگتا ہے۔“
حقیقت رائے کی یادگار اس وقت کوٹ خواجہ سعید لاہورمیں ہے۔ عام طور پر لوگ اس جگہ کو ’باوے دی مڑھی‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ ہندی زبان میں ’مڑھی‘ قبرستان کو کہا جاتاہے، گویا یہ ” بابے کا قبرستان“ ہے۔ حقیقت رائے کو ہندوؤں نے ’بابے‘ کا مرتبہ بھی دے رکھا ہے۔ ایک گستاخِ رسول ان کے نزدیک مقدس ’بابا‘ ہے۔ موٴرخین کے مطابق حقیقت رائے کی یادگار پر سب سے پہلے جس ہندو رئیس نے میلے کا آغاز کیا تھا، اس کا نام کالو رام ہے۔ یہ یادگار قبرستان کے ساتھ اب بھی موجود ہے!
سیکولر لادین اور مغرب زدہ طبقہ تو ایک طرف رہا، بظاہر مذہب سے لگاؤ رکھنے والے اَفراد کو بھی بسنت منانے سے روکا جاتاہے تو وہ اسے محض ’ملا کا وعظ‘کہتے ہوئے مسترد کردیتے ہیں ۔ ان کے خیال میں پاکستان میں مذہبی پارساؤں کا ایک عوام دشمن گروہ ہے جو لوگوں کو سچی، حقیقی اور بے ضرر تفریح کے مواقع سے بھی محروم کرنا چاہتا ہے۔ وہ اس بات کو ذہنی طور پر تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ بسنت ہندوؤں کا ایک مذہبی تہوار بھی ہے جو اسے خاص موسم میں مناتے ہیں ۔ حقیقت رائے کی یاد میں منائے جانے والے ’بسنت میلہ‘ کے پس منظر سے تو شاید ہی کوئی واقف ہو۔ ہندو اور سکھ موٴرخین برملا اعتراف کرتے ہیں کہ لاہور میں بسنت پنچمی کے روز منایا جانے والا میلہ حقیقت رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ مگر ہمارے بعض مسلمان بضد ہیں کہ یہ صرف موسمی تہوار ہے۔
بعض افراد یوں استدلال کرتے ہیں کہ بسنت ہندوؤں کا مذہبی تہوار ہوگا مگر ہم تو اسے محض موسمی اور ثقافتی تہوار سمجھ کر مناتے ہیں ۔ یہ تو ان کا محض تجاہل عارفانہ ہے۔ ایک شخص دعوت ناؤ نوش میں شریک ہوتا ہے، وہاں حلال اور حرام مشروبات کثیر تعداد میں موجود ہیں ، اس نے شراب کو آ ج تک دیکھا ہے، نہ چکھا ہے۔ وہ شراب کی بوتل کھول کر کچھ نوشِ جاں کرلیتا ہے۔ اتنے میں مجلس میں موجود اسے ایک شخص بتاتا ہے کہ قبلہ آپ شراب سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ؟ اس اطلاع کے بعد بھی اگر وہ یہ عذر پیش کریں کہ میں تو اس کو محض ایک شربت سمجھ کر پی رہا ہوں توکیا اس کا یہ عذر معقول سمجھا جائے گا؟ مزید برآں بسنت کے تاریخی پس منظر سے لاعلمی کا اظہار بھی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ ایک جاہل آدمی تو شاید معذور