کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 79
بلکہ تہذیب کے نام پر ایسے بدنما داغ جس قدر ممکن ہو بے نقاب کر دئے جائیں تاکہ ان کا اصل چہرہ عوام کے سامنے رہے۔ ہمارے پریس اور ذرائع ابلاغ کویہ فریضہ انجام دینا چاہئے مگر اَرذل العمر کو پہنچی ہوئی یہ مغنیہ جب ۲۳/دسمبر ۲۰۰۰ء کو مری تو ہمارے اخبارات (بالخصوص اُردو) نے اس قدر بھرپور کوریج (تشہیر) دی کہ اسے بہت بڑا قومی سانحہ بنا کر پیش کیا۔ اخبارات کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ عوامی رائے کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ ایک دانش ور کا قول ہے کہ پریس معاشرے کے لئے تھرمامیٹر کا کام کرتا ہے۔ ۲۴ دسمبر ۲۰۰۰ء کے پاکستانی اخبارات کو دیکھ کر ان اَقوالِ زرّیں کی صداقت پر اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ ہر اخبار نے کوشش کی کہ نورجہاں کے متعلق جس قدر رطب و یابس میسر آئے، شائع کردیا جائے۔ نوائے وقت جیسے نظریہٴ پاکستان کے علمبردار اخبار پر بھی نورجہاں کا ’بخار‘ اس قدر طاری ہوا کہ اس کے صفحہٴ اوّل اور آخر پر نورجہاں کے حالاتِ زندگی، گیتوں اور تصاویر کے علاوہ کوئی خبر شائع نہ ہوئی۔ روزنامہ جنگ، خبریں ، پاکستان اور دن کے صفحات پر ہر طرف نورجہاں ہی ’رقصاں ‘ تھی۔ روزنامہ ’انصاف‘ شاید واحد اخبار ہے جسے مستثنیٰ قرار دیا جاسکتا ہے۔ راقم الحروف نے ” نورجہاں کی موت کی ذرائع ابلاغ میں کوریج“ کے عنوان سے تحریر کردہ اپنے طویل مضمون میں مختلف اخبارات میں نورجہاں کو دی جانے والی مجنونانہ تشہیر پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔ یہ مضمون روزنامہ انصاف، ہفت روزہ ایشیاء اور مجلہ الدعوة (فروری) کے علاوہ بہت سے رسائل میں شائع ہوچکا ہے۔ تفصیل کے شائق قارئین وہاں دیکھ سکتے ہیں ۔ ہمارے ذرائع ابلاغ نے نورجہاں کو جو اہمیت، عزت و احترام اور بھرپور پذیرائی عطا کی ہے، کیا واقعی وہ اس کی مستحق تھی؟ آخر نورجہاں کا وہ عظیم کارنامہ کیا ہے جس کی بنیاد پر اس کی شخصیت کے متعلق مبالغہ آمیز پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے؟ گانا بجانا اور موسیقی سے وابستگی ایک مخصوص طبقے کے لئے بے حد قابل قدر فن ہوسکتا ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کیا پاکستانی قوم کی عظیم اکثریت بھی راگ رنگ کو اسی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے؟ پاکستان میں گانا سننے والے بہت ہیں ، مگر کتنے لوگ ہیں جو اپنی بہو بیٹیوں کو گانے والیوں کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں ؟… اگر گیت گانا ہی عظیم ترین فن ہوتا تو ہمارے معاشرے میں ہر طرف میراثیوں کا راج ہوتا۔مگر آج بھی ہمارے معاشرے میں میراثیوں کو کمی کمین اور گھٹیا طبقہ سمجھا جاتا ہے، ان کے انسان ہونے کے ناطے سے نہیں بلکہ ان کے پیشے کے اعتبار سے۔ زیادہ سخت الفاظ میں عام طور پر لوگ گانے والوں کو ’کنجر طبقہ‘ جیسے الفاظ سے یاد کرتے ہیں ۔ سوال پیداہوتا ہے کہ ذرائع اِبلاغ میں نورجہاں یا اس قماش کے دیگر لوگوں کو جو بے انتہا تشہیر دی جاتی ہے، اس کی وجوہات کیا ہیں ! راقم الحروف کے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ پر ایک مخصوص طبقہ نے قبضہ کررکھا ہے جس نے موسیقی کو ’دین و ایمان‘ کا درجہ دے رکھا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں میں بھی ایک طبقہ ایسا رہا ہے جس کی سوچ پر ہندو مذہب کے گہرے