کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 78
رکھنا میری مجبوری ہے، اس کے بغیر میں اچھی طرح گا نہین سکتی۔‘‘ شوکت رضوی جسے نورجہاں کے پہلے شوہر ہونے کا ’اعزاز‘ حاصل ہے، اس سے زیادہ بہتر نورجہاں کے بارے میں کون جانتا ہے۔ اس نے اپنی سابقہ بیوی پر جو کتاب شائع کی، اس کے بعض حصے روزنامہ خبریں ، اور دیگر رسائل نے ’افادۂ عام‘ کے لئے شائع کئے ہیں ۔ ا س میں نورجہاں کا جو مرقع کھینچا گیا ہے، اس میں ایک گھٹیا، شہوت پرست، آوارہ مزاج، بدطینت، زبان دراز اور بدتمیز عورت کی تصویر سامنے آئی ہے۔ صرف گانے ہی نہیں ، مغلظات بکنے کے فن میں بھی نورجہاں یکتا تھی۔ ا س سے مسلسل ملنے والا شاید ہی کوئی ’خوش نصیب‘ ہو جو اس کی گالیوں کا تختہٴ مشق نہ بنا ہو۔ اس سے گالیاں کھا کر بدمزہ نہ ہونے والے بھی کم نہیں ہیں ۔ نورجہاں تمام عمر زروجواہر میں کھیلتی رہی۔ وہ ’کوٹھے‘ کے ماحول سے نکل کر ’کوٹھی‘ کے ماحول میں آگئی۔ وہ روایتی طوائفوں کی طرح بدقسمت نہیں تھی جو تمام عمر کوٹھوں پر مجرے دکھا کر رزقِ خاک ہوجاتی ہیں ۔ ا س کی پائل کی جھنکار ایوانِ صدر اور گورنر ہاؤس جیسے شاہانہ محلات میں بارہا سنی گئی۔ کسی صدرِ مملکت کو اپنی انگلیوں پرنچانا کسی بھی طوائف زادی کا خواب بھی ہوتا ہے اور اس کے لئے عظیم چیلنج بھی۔ نورجہاں اس اعتبار سے ’خوش قسمت‘ واقع ہوئی کہ یحییٰ خان جیسے بدبخت صدر نے اسے ’آنکھوں کا نور‘ بنا کے رکھا۔ نورجہاں کی زندگی کا یہ بھیانک پہلو قصہ ماضی بن چکا تھا، مگر حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے اس کو ایک دفعہ پھر زندہ کر دیا ۔ نورجہاں کی موت کے فوراً بعد اس رپورٹ کا سامنے آنا غور طلب معاملہ ہے۔ ۳۰/ دسمبر ۲۰۰۰ء کو منظر عام پر آنے والی حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں یحییٰ خان اوردیگر جرنیلوں کی بدقماش عورتوں سے رنگ رلیوں کے واقعات میں نورجہاں کا تذکرہ پڑھئے او رپھر اندازہ کیجئے کہ نور جہاں کا اصل کردار کیاتھا: ” نومبر ۱۹۷۱ء میں جب پاک فوج مشرقی پاکستان میں دشمنوں سے نبرد آزما تھی تو اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی جس میں نورجہاں جنرل یحییٰ خان کے قدموں میں بیٹھ کر اسے شراب پیش کر رہی تھی۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جب یحییٰ خان نے اپنی سالگرہ منعقد کی تو جنرل رانی پہلی مرتبہ نورجہاں کو لے کر آئی۔ پہلی ہی ملاقات میں نورجہاں نشے میں دھت ہو کر یحییٰ خان کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ نورجہاں نے یحییٰ خان کے نام ایک خط بھی لکھا جس میں اس نے اپنی محبت کا یقین دلاتے ہوئے ایک صنعت کار کا کام کرنے کی فرمائش کی“ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران نورجہاں نے کم از کم چار دفعہ گورنر ہاؤس میں جنرل یحییٰ خان سے ملاقات کی۔ یہ ملاقاتیں محض گانا سننے تک تو محدود نہیں رہ سکتی تھیں ۔ نہایت تعجب ہے کہ ایوانِ صدر اور گورنر ہاؤس میں شراب نوشی کی محفلوں میں ’کباب‘ بننے والی نورجہاں کو آج بعض کالم نگار ایک مقدس ہستی کے طو رپر پیش کررہے ہیں ۔ مندرجہ بالا سطور میں جوکچھ بیان کیا گیا ہے وہ نور جہاں کی زندگی کی محض جھلکیاں ہی ہیں ، مگر اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل تونہیں ہے کہ یہ گائیکہ اس قابل قطعاً نہیں ہے کہ اسے احترام کا مستحق سمجھا جائے