کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 77
نہیں ہے۔ اللہ وسائی ابھی چھ برس کی ہی تھی کہ اس نے گانا شروع کردیا تھا۔ ۹ برس کی عمر میں وہ بمبئی کی فلمی صنعت میں جلوہ گر ہوگئی۔ ۱۹۳۴ء میں سیٹھ سکھ لال کرنانی کی ایک تھیٹر کمپنی میں اسے معقول مشاہرے پر ملازمت مل گئی۔ وہ فلموں میں بھی حصہ لیتی رہی۔ فلمی صنعت کے طوائف پرستوں نے اس کے جسمانی وصوتی جمال کا بھرپور استحصال کرکے اپنے کاروبار کو چمکایا۔
تھیٹر کمپنی والوں نے اللہ وسائی کا نام ’بے بی نورجہاں ‘ رکھا دیا۔ یہ نام اتنا مقبول ہوا کہ خود اس کے جنونی مداحوں میں بھی یہ بات متنازعہ فیہ ہے کہ اس کا اصل نام کیا تھا۔ بمبئی میں قیام کے دوران نورجہاں کم سنی کے باوجود جنسی آوارگی اور اباحیت ِمطلقہ میں مبتلا رہی۔ اگرچہ اس کے چاہنے والے اس کی زندگی کے اس مکروہ پہلو کے متعلق آج اشارہ تک نہیں کرتے مگر ۱۹۴۶ء میں سعادت حسن منٹو نے ’نورجہاں سرورِ جہاں ‘ کے عنوان سے جو خاکہ تحریر کیا تھا، اس میں شوکت رضوی کے ساتھ فاسقانہ شب باشیوں کا تذکرہ نہایت مزے لے کر کیا ہے۔ اس کے کئی افراد کے ساتھ ناجائز تعلقات رہے۔ عشق کا ڈھونگ رچا کر فی الواقع فسق کا ارتکاب کرنا فلمی طبقہ کا معروف کلچر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو ’ذواقین‘ اور ’ذواقات‘کا نام دیا ہے، جدید دور میں اس کا صحیح مصداق یہی طبقہ ہے۔ نورجہاں کو اچھی طرح جاننے والے اعتراف کرتے ہیں کہ اس میں ’ذواقیت‘ کے بھرپور جراثیم تھے۔
سلیم باسط نے اپنے مضمون میں نورجہاں کو ایک بے حد خدا رسیدہ اور ’پہنچی ہوئی‘ عورت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، لکھتا ہے: ” ان کی زندگی میں جو بھی ان کے قریب رہا، وہ خود بھی سونے کا بن گیا۔ ان کے پاس اکثر عورتیں دعا کرانے کے لئے آتی تھیں ۔‘‘ یہ لغو دعویٰ ناقابل یقین ہے۔ یہی قلمکار اپنے مضمون میں البتہ یہ بھی لکھ گیا ہے :
” نورجہاں کی پوری زندگی جہاں بے پناہ شہرت، دولت اور خوش قسمتی کی ناقابل یقین روایات سے عبارت تھی، وہیں ان کی پوری زندگی تنازعات اور اَفواہوں کی زد میں بھی رہی۔ شوکت حسین رضوی سے علیحدگی کے بعد ان کا نام ایک کرکٹر، ایک فلم ساز، کئی اداکاروں ، پی آئی اے کے ایک کپتان اور دیگر مختلف لوگوں کے ساتھ جوڑا جاتا رہا ہے۔ اعجاز درّانی سے شادی کے بعد افواہوں کا یہ سلسلہ کچھ عرصہ کے لئے رک گیا مگر ان دونوں کے درمیان علیحدگی کے بعد یہ سلسلہ پھر شروع ہوگیا خوبصورتی اور ذہانت نورجہاں کی بڑی کمزوری تھی۔“
مذکورہ مداح نے بے حد محتاط انداز میں نورجہاں کی ذواقانہ طبیعت پر ’افواہوں ‘کا پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے چند ایک افراد کے نام بھی لئے ہیں ورنہ نورجہاں کے ’چاہنے والوں ‘ کی جو فہرست منظر عام تک آسکی ہے ، خاصی طویل ہے۔ ایک کالم نگار نے حال ہی میں نورجہاں پرلکھے جانے والے مضمون میں خود نورجہاں کا یہ قول نقل کیا ہے: ” میں گناہوں کا کبھی حساب رکھتی ہوں ، نہ گانوں کا“ معروف صحافی خالد حسن نے بہت عرصہ پہلے انگریزی میں نورجہاں کا جو مفصل خاکہ تحریر کیا تھا، اس میں نورجہاں کا اپنے بارے میں یہ ’تعریفی‘ جملہ بھی ملتا ہے: ” ہر وقت کسی نہ کسی مرد سے قلبی وابستگی (عشق)