کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 76
نورجہاں کو ’نور‘ ، ’روشنی‘ یا ’چراغ‘کہنا ایک مشرکانہ قول ہے۔ شہوت پرستوں نے اللہ وسائی کا نام ’نورجہاں ‘ رکھ دیا ورنہ حقیقت میں وہ ظلمت ِجہاں تھی۔ وہ فتنہٴ مجسم اور فتورِ جہاں تھی۔ مسلسل ستر برس تک اس نے سفلی جذبات کو برانگیختہ کرنے والے گیت گائے۔ وہ خود بھی تمام عمر جنسی آوارگی، عشق و مستی اور فسق و فجور میں مبتلا رہی اور اس کے گانے سن کر کروڑوں اَفراد فکری ضلالتوں میں مبتلا ہوئے۔ خداداد حسن صوتی سے وہ چاہتی تو نشر خیر کا کام لے سکتی تھی، مگر اس نے اس سے فتنہ پروری کا کام لیا۔ ایک زمانہ ہے جو اسکے ہوش رُبا فتنے کا شکار اور اسکی آواز کے سحر سے مسحور ہوا۔ لفنگے عاشقوں کے غول ہیں جو اسکے گانوں سے دل بہلاتے ہیں ۔
کجی کو حسن، شب ِدیجور کو صبح نور، ظلمت کو روشنی، حرمت کو حلت، کثافت کو ثقافت، تعفن کو فن اور شر کو خیر سمجھنے والے بے نور دماغ ہی ایک گائیکہ کو ’نور‘ کہہ سکتے ہیں ۔ حسن مبالغہ سے اَعمال کی بدصورتی کو بدلا تو نہیں جاسکتا۔ آخر وہ کون سی روشنی ہے جو اللہ رکھی نے نورجہاں بن کر دنیا بھر میں پھیلائی؟اس کی تفصیلات بیان کرنا نورجہاں کے بے فیض مداحوں پرایک ایسا قرض ہے جس سے فصاحت و بلاغت کے دریا بہا کر بھی وہ عہدہ برآ نہیں ہوسکیں گے۔ سلیم باسط نامی مضمون نگار جس نے نورجہاں کی طرف سے روشنی پھیلانے کا بے حد لغو اور واہیات دعویٰ کیا ہے، خود ہی ۱۴/جنوری کے جنگ میگزین میں تحریر کرتا ہے:
” بے بی نورجہاں نے تھیٹر سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ کلکتہ جو ان دنوں برصغیر میں فن وثقافت کی دنیا کا سب سے بڑامرکز تھا، نورجہاں کی اوّلین تربیت گاہ بنا۔ ان دنوں کئی تھیٹر کمپنیاں یہاں کام کررہی تھیں اور فلمی صنعت کی اوّلیت تربیت گاہ ان تھیٹر کمپنیوں کو ہی سمجھا جاتاتھا۔ اس دور کے کئی بزرگ آج بھی حیات ہیں جنہوں نے بے بی نورجہاں کو اسٹیج پر پرفارم کرتے دیکھا تھا“
تھیٹر جیسے ظلمت کدوں اور گناہ کے اڈّوں میں اللہ رکھی سے بے بی نورجہاں بننے والی ایک طوائف زادی کی مداحی میں آج کے ملحد قلمکار زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں ۔ جس عورت کی ’اوّلین‘ تربیت گاہ ایک تھیٹر ہو اور جس کی پوری زندگی یا تو فلمی اسٹوڈیوز کے گناہ آلود ماحول میں بسر ہوئی ہو یا پھر اقتدار کے ایوانوں میں اپنے شباب کی قیمت وصول کرتے گذری ہو، اس کے بارے میں روشنی پھیلانے کا تصور وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے دماغ روشنی اور اندھیرے کے درمیان فرق سمجھنے سے قاصر ہیں ۔
موسیقی کو ’روح کی غذا‘ سمجھنے والے شہواتِ نفس کے غلاموں کی جانب سے ’ملکہ ترنم‘ اور ’تاریخ ساز ہستی‘ کے اَلقابات حاصل کرنے والی نورجہاں کی زندگی لہو و لعب کا مرقع ہے۔ نورجہاں نے ۱۹۲۸ء میں ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کا پیشہ قحبہ گری تھا۔ ا س کے حقیقی نام کے بارے میں اس کے سوانح نگاروں میں بھی اتفاق نہیں ہے۔ بعض نے اسے اللہ وسائی لکھا ہے توکچھ افراد نے اس کا نام اللہ رکھی بیان کیا ہے۔ یہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے کہ اس قدر شہرت پانے والی گائیکہ کے حقیقی نام پر بھی اتفاقِ رائے نہیں ہے۔ بہرحال اس کا جو بھی خاندانی نام تھا، وہ بلاشبہ ایک طوائف زادی تھی۔ طوائف زادی ہونا فی نفسہ کوئی گناہ نہیں ہے، نہ ہی کسی گانے والی کی اولاد ہونا بذات ِ خود کوئی عار کا باعث ہے۔ البتہ اس گانے بجانے کو زندگی بھر اوڑھنا بچھونا اور طوائفوں کے انداز ِ حیات کو ہی اپنا طرز ِ زندگی بنا لینا یقینا پسندیدہ امر