کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 75
مقالات محمدعطاء اللہ صدیقی نور جہاں ، فتورِ جہاں ” نہیں ، تم کچھ نہیں جانتے منٹو! … یہ نور ہے نورجہاں ہے، سرور ِ جہاں ہے۔ خدا کی قسم ایسی آواز پائی ہے کہ بہشت میں خوش اَلحان سے خوش الحان حور سنے تو اسے سیندور کھلانے کے لئے زمین پر اُتر آئے“ جھوٹ کی حد تک مبالغہ آرائی پر مبنی یہ وہ جملے ہیں جو قلمی اَوباشی میں شہرت رکھنے والے افسانہ نویس سعادت حسن منٹو نے ایک گلوکارہ کے متعلق ۱۹۴۶ء میں لکھے گئے خاکے ” نور جہاں ، سرورِ جہاں “ میں استعمال کئے تھے۔ اَدب میں حسن مبالغہ کے استعمال کو ہمیشہ روا سمجھا جاتاہے مگر … کہاں بہشت کی پاکیزہ حور او رکہاں فسق و فجور میں لتھڑی ہوئی ایک آوارہ مزاج گانے والی لڑکی!…۱۴/ جنوری ۲۰۰۱ء کے جنگ سنڈے میگزین کا فیچر نگار نور جہاں کے بارے میں اپنے فیچر کا آغاز اِن الفاظ میں کرتا ہے: ” ۷ ۲ رمضان المباک کی شب ڈیفنس کراچی کے قبرستان میں تقریباً سو اَفراد ایک چراغ کو مٹی میں رکھ رہے تھے… اَب صدیوں تک ایسے چراغ کے طلوع ہونے کی توقع نہیں تھی“ اس فیچر کا خاتمہ ان الفاظ میں کیا گیا: ” اللہ رکھی سے نورجہاں بن کر دنیا بھر میں روشنی پھیلانے والے نورجہاں جیسے انسان دنیا میں صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ اب اس دنیا کو صدیوں تک کسی اور نورجہاں کا انتظار کرنا ہوگا“ سعادت حسن منٹو جیسے ملحد جنس نگار ہی ہیں جنہیں اس طرح کی دروغ گوئی سے ذرّہ برابر خوفِ خدا نہیں رہتا۔ ایک لعوولعب، فسق و فجور، گانے بجانے اور جنسی آوارگی کا شکار عورت کو ’نور‘ صرف وہی ادیب لکھ سکتے ہیں جن کے قلوب اِلحاد و زندیقیت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ یہ وہ بدبخت طائفہ اُدباء ہے جس کو قرآن و سنت کا نور توکبھی نظر نہیں آیا، البتہ غناء اور موسیقی کے فتور کو ہی ’نور‘ سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ قرآنِ مجید میں واضح طور پر ارشادِ ربانی ہے : ﴿اَللّٰهُ نُوْرُ الَسَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ ﴾ یعنی ” اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے“ ایک اور مقام پر قرآنِ مجید کو ’نور‘ قرار دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿ اللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِيْنَ آمَنُوْا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ إِلیٰ النُّوْر ِ﴾ ” اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دوست ہیں جو ایمان لائے، وہ انہیں ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لاتے ہیں “ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں نور سے مراد ہدایت ِ خداوندی اور صراط ِمستقیم ہے۔ غناء ، موسیقی اور فلمی عورتوں کے طرزِ حیات کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے تناظر میں پرکھا جائے تو