کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 7
گیا۔ ہندو موٴرخین نے حقیقت رائے دھرمی کی سزائے موت پر عملدرآمد کی تاریخ بسنت پنچمی بتائی ہے۔ عین ممکن ہے اس سال بسنت پنچمی اور ۶ فروری کی تاریخیں ایک ہی دن میں واقع ہوئی ہوں ۔ لاہور میں ماضی قریب میں بسنت ۶ یا ۷ فروری کو منایا جاتا رہا ہے۔ ان تاریخوں کی مشابہت بھی حقیقت رائے کے میلہ کی بسنت میلے سے نسبت کوظاہر کرتی ہے۔ الیگزینڈر نے راجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے ۶ فروری کومنائے جانے والے میلے کو ’بہار کا خیر مقدم‘ کہا ہے، جو عقلی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ فروری کے پہلے ہفتہ میں اب بھی اچھی خاصی سردی پڑتی ہے، ماضی میں تو موسم کی شدت اور زیادہ تھی۔ موسم بہار کا آغاز فروری کے آخری ہفتے یا مارچ کے پہلے ہفتہ میں ہوتا ہے۔ اگر یہ میلہ بہار کے استقبال میں منعقد کیا جاتا تو اسے سردیوں یا خزاں کے عین درمیان ہر گز منعقد نہ کیا جاتا۔ معلوم ہوتا ہے انگریز موٴرخ جو بسنت میلہ کے حقیقی پس منظر سے واقف نہیں تھا، کو غلط فہمی لاحق ہوئی ہے۔ سکھ دورِ حکومت میں ۶ فروری کو بسنت میلہ منانا ظاہرکرتا ہے کہ یہ سرکاری سطح پر حقیقت رائے کے میلے کا اِنعقاد ہی تھا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چنددیگر ہندو وسکھ مصنّفین کی آراء بھی درج کردی جائیں جن کے خیال میں لاہور میں بسنت میلہ حقیقت رائے دھرمی کی یا دمیں منایا جاتا ہے۔ اورنٹیل کالج، لاہور کے سابق لیکچرر گیانی خزان سنگھ نے ” تاریخ گوردوارہ ،شہید گنج“ میں اس واقعہ کا ذکر بے حد جذباتی انداز میں یوں کیا ہے : ” تواریخ کے محقق اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بھائی حقیقت سنگھ جنہیں عام لوگ حقیقت رائے دھرمی کے نام سے یاد کرتے ہیں ، امرت دھاری اور تیار برتیار سنگھ تھے۔ آپ کے ننھیال والے سکھ تھے اور موضع سوہدرہ، ضلع گوجرانوالہ میں رہتے تھے۔ آپ کے ماموں بھائی اَرجن سنگھ تیار برتیار سنگھ تھے جو کہ آ پ کے ساتھ ہی نخاس چوک میں شہید کردیئے گئے تھے۔ آپ کے سسرال بھائی کنشن سنگھ وڈالے والہ کے گھر تھے۔ لاہور میں اس جگہ (شہید گنج) پرآپ کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ ان کے بوڑھے پتا، ضعیف والدہ اور جوان بیوی کی آہیں اور فریادیں ، پتھروں کو بھی موم کردینے والی چیخیں اورمنتیں بھی اس وقت کے حکام کے دل میں رحم اور ترس کے جذبات پیدا نہ کرسکیں اور آپ نہایت سکون کے ساتھ سن ۱۸۰۳ء بکرمی میں پنچمی کے دن دھرم کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھ گئے۔ بسنت پنچمی کے روز آپ کی سمادھ پر بڑا بھاری میلہ لگتا ہے“ گیانی خزان سنگھ کی ’تحقیق‘ کے مطابق حقیقت رائے ہندو نہیں بلکہ ’سکھ‘ تھا۔ مندرجہ بالا سطور میں جن بے پایاں عقیدت کا اظہار کیا گیا ہے، اس سے یہ گمان گزرتا ہے کہ ہندو اور سکھ، مسلمانوں کے پیغمبر کے گستاخ حقیقت رائے کو وہی درجہ دیتے ہیں ، جومسلمان غازی علم الدین شہید کو دیتے ہیں ۔ سکھوں کی طرف سے ’بسنت میلہ‘ میں جوش و خروش کے اِظہار کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ حقیقت رائے کو سکھ