کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 63
﴿ وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ﴾
” اور اگر وہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو ان کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کی قسموں کا اعتبار نہیں “ (التوبہ: ۹/۱۲)
ذمی: ذمی کے حقوق باقی تمام کافروں سے زیادہ ہیں ۔ ان کے کچھ حقوق ہیں اور کچھ ذمہ داریاں ۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کے ملک میں زندگی بسر کرتے اور ان کی حمایت اور رعایت میں رہتے ہیں جس کے عوض وہ جزیہ ادا کرتے ہیں ۔لہٰذا مسلمانوں کے حاکم پر واجب ہے کہ ان کے خون، مال اور عزت کے مقدمات میں اسلام کے حکم کے مطابق فیصلہ کرے اور جس چیز کی حرمت کا وہ عقیدہ رکھتے ہیں اس میں ان پرحدود قائم کرے اور حاکم پر ان کی حمایت اور ان سے تکلیف کو دور کرنا ضروری ہے۔
اور یہ بھی ضروری ہے کہ ان کا لباس مسلمانوں کے لباس سے الگ ہو اور وہ کسی ایسی چیز کا ا ظہار نہ کریں جو اسلام میں ناپسندیدہ ہو یا ان کے دین کا شعار (شناختی علامت) ہو، جیسے ناقوس اور صلیب۔ ذمیوں کے احکام اہل علم کی کتابوں میں موجود ہیں لہٰذا ہم یہاں اسے طول نہیں دیتے۔
ان حقوق پر عمل کرنا مسلمانوں میں محبت کا ذریعہ ہے۔ یہ ایسے حقوق ہیں جن پرعمل کرنے سے باہمی عداوت اور نفرت زائل ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ ان پر عمل برائیوں کے مٹنے، نیکیوں کے دوگنا چوگنا ہونے اور درجات کی بلندی کا سبب ہے۔ اللہ مسلمانوں کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!