کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 61
تمہارا حال درست کرے“ کہے اور جب اسے بار بار چھینکیں آرہی ہو تو تین باريرحمک الله کہے اور چوتھی بار يرحمک الله کی بجائے عَافَاکَ اللّٰه ” اللہ تعالیٰ تمہیں عافیت میں رکھے“ کہے۔
پانچواں حق: جب کوئی مسلمان بیمار ہو تو تو اس کی بیمار پرسی کر۔ مریض کی عیادت کا معنی اس سے ملاقات کرنا ہے اور یہ مسلمان بھائیوں کا اس پر حق ہے۔ لہٰذا مسلمانوں پر عیادت کرنا واجب ہے اور جب مریض سے تمہاری قرابت، دوستی یا ہمسائیگی ہو تو عیادت اور بھی ضروری ہوجاتی ہے۔
عیادت مریض اور مرض کے حسب ِحال ہونی چاہئے۔ کبھی حالات کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ بار بار عیادت کے لئے آتا رہے کیونکہ حالات کا لحاظ رکھنا بہت مناسب ہے اور جو شخص مریض کی عیادت کرے اس کے لئے سنت طریقہ یہ ہے کہ وہ اس کا حال پوچھے اور ا س کے لئے دعا کرے، کشادگی اور اُمید کا دروازہ کھولے کیونکہ یہ چیز صحت اور شفا کے لئے بڑے اَسباب میں سے ایک سبب ہے اور مناسب یہ ہے کہ اس سے توبہ کا ذکر اس انداز سے کرے جو اسے تعجب میں نہ ڈال دے۔ مثلاً اسے یوں کہے
” موٴمن کی بھی عجیب شان ہے کہ وہ ہر حال میں نیکیاں حاصل کرسکتا ہے کیونکہ مرض سے اللہ تعالیٰ خطائیں دور کرتا اور برائیاں مٹا دیتا ہے اور شاید تو اپنے اس مرض میں کثرتِ ذکر، استغفار اور دعا سے بہت بڑا اجر کما لے۔“
چھٹا حق : مسلمان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے بھائی کے جنازہ میں شریک ہو اوراس میں بہت بڑا اجر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من تبع الجنازة حتی يصلی عليها فله قيراط، ومن تبعها حتی تدفن فله قيراطان، قيل وما القيراطان؟ قال مثل الجبلين العظيمين
(بخاری و مسلم)
” جو شخص جنازہ کے ساتھ چلے حتیٰ کہ اس پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے، اس کے لئے ایک قیراط اجر ہے اور جو اس کے ساتھ چلے یہاں تک کہ دفن کیا جائے اس کے لئے دو قیراط ہیں ۔ آپ سے پوچھا گیا کہ یہ دو قیراط کیا ہیں ؟ فرمایا : جیسے دو بڑے بڑے پہاڑ“
ساتواں حق: مسلمان کے دوسرے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ اسے تکلیف پہنچانے سے باز رہے کیونکہ مسلمانوں کو دکھ پہنچانا بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ يُوٴذُوْنَ الْمُوٴمِنِيْنَ وَالْمُوٴمِنٰتِ بِغَيْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّإثْمًا مُّبِيْنًا﴾ (الاحزاب: ۳۳/۵۸)
” اور جو لوگ موٴمن مردوں اور موٴمن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت) سے دکھ پہنچاتے ہیں جو انہوں نے کیا نہیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھا لیا“
اور اکثر یوں ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے بھائی پر کوئی تکلیف مسلط کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی اس سے انتقام لے لیتا ہے اور رسول اللہ نے فرمایا: