کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 6
ہندو موٴرخ ڈاکٹرنجار کی یہ بات تو محل نظر ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ سے ” پنجاب کی ساری غیر مسلم آبادی کو شدید دھچکا لگا“ کیونکہ آج سے دو سوسال قبل ذرائع اِبلاغ اس قدر تیز نہیں تھے کہ ایسے واقعہ کی اطلاع صدر مقام سے دور کے علاقوں تک بھی پہنچ سکے، البتہ اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ لاہور کے ہندوؤں کے ایک گروہ نے اس واقعہ کے خلاف شدید جذباتی ردّعمل کا اظہار کیا۔ کیونکہ اس وقت پنجاب میں مسلمانوں کی حکومت تھی، طبعاً بزدل مزاج ہندوؤں کے لئے یہ توممکن نہ تھا کہ وہ بھرپور تحریک چلاتے، البتہ انہوں نے حقیقت رائے کی یاد میں میلہ منانا شروع کردیا جو احتجاج کی ایک نرم مگر موٴثر صورت تھی۔ اس واقعہ کے تقریباً پچاس سال بعد پنجاب میں سکھوں نے مسلمانوں کو شکست دے کر تخت لاہور پر قبضہ کرلیا۔ سکھ تو پہلے ہی بہت جذباتی ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعہ کے ’ذمہ دار‘ مسلمانوں کو قتل کرچکے تھے۔ جب وہ پنجاب میں برسراقتدار آئے تو انہوں نے اس واقعہ کے حوالے سے بسنت کا تہوار جوش و خروش سے منانا شروع کردیا۔ ایک انگریز موٴرخ الیگزینڈر بریز جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں لاہور آئے تھے، انہوں نے یہاں بسنت منانے کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے:
” بسنت کا تہوار جو بہار کا تہوار تھا، ۶ فروری کو بڑی شان و شوکت سے منایا گیا۔ رنجیت سنگھ نے ہمیں اس تقریب میں مدعو کیا اور ہم اس کے ہمراہ ہاتھیوں پرسوار ہوکر اس میلہ کی بہار دیکھنے چلے جو بہار کا خیر مقدم کرنے کے لئے منایا جاتا ہے۔ لاہور سے میلہ تک مہاراجہ کی فوج دو رویہ کھڑی ہوتی ہے۔ مہاراجہ گذرتے وقت اپنی فوج کی سلامی لیتا ہے۔ میلہ میں مہاراجہ کا شاہی خیمہ نصب تھا جس پر زرد رنگ کی ریشمی دھاریاں تھیں ۔ خیمہ کے درمیان میں ایک شامیانہ تھا جس کی مالیت ایک لاکھ روپے تھی اور اس پر موتیوں اور جواہرات کی لڑیاں آویزاں تھیں ۔ اس شامیانہ سے شاندار چیز کوئی نہیں ہوسکتی۔ مہاراجہ نے بیٹھ کر پہلے گرنتھ صاحب کا پاٹھ سنا، پھر گرنتھی کو تحائف دیئے اور مقدس کتاب کو دس جزدانوں میں بندکردیا۔ سب سے اوپر والا جزدان بسنتی مخمل کا تھا۔ اس کے بعد مہاراجہ کی خدمت میں پھل اور پھول پیش کئے گئے جن کا رنگ زرد تھا۔ بعد ازیں اُمراء، وزراء افسران آئے جنہوں نے زرد لباس پہن رکھے تھے، انہوں نے نذریں پیش کیں ۔ اس کے بعد طوائفوں کے مجرے ہوئے، مہاراجہ نے دل کھول کر اِنعامات دیئے“
(نقوش، لاہور نمبر ص ۷۶۳)
انگریز موٴرخ الیگزینڈر کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ اگرچہ راجہ رنجیت سنگھ کے دور میں بسنت بظاہر بہار کا خیرمقدم کرنے کے لئے منائی جاتی تھی مگر اس کی تقریبات پر مذہبی رنگ غالب تھا۔ مہاراجہ کا میلے میں باقاعدہ گرنتھ صاحب سننا اور گرنتھی کو تحائف دینا مذہبی رسومات کے زمرے میں آتا ہے۔ ہندو برہمنوں کو نذرانے دیتے ہیں تو سکھ گرنتھیوں کو تحائف دیتے ہیں ۔ سکھ مذہب میں بسنتی یا زرد رنگ کو بھی ایک خاص تقدس کا مرتبہ حاصل ہے۔ اب بھی سکھ مذہبی راہنما زرد پگڑیاں پہنے نظر آتے ہیں ۔
الیگزینڈر نے راجہ رنجیت سنگھ کے دور میں جس بسنت میلہ میں شرکت کی، وہ ۶ فروری کو منعقد کیا