کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 59
حق المسلم علی المسلم ست: إذا لقيته فسلم عليه وإذا دعاک فأجبه وإذا استنصحک فانصحه وإذا عطس فحمد اللّٰه فشمته وإذا مرض فعدہ وإذا مات فاتبعه ” ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں جب اُسے ملے تو السلام علیکم کہے، جب وہ دعوت دے تو اسے قبول کرے، خیرخواہی طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرے، جب چھینک مارے اور الحمدللہ کہے تو یرحمک اللہ کہے، جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے اور جب مرجائے تو اس کے جنازہ میں شامل ہو۔ گویا اس حدیث میں مسلمانوں کے باہمی حقوق کا بیان ہے“ (مسلم) پہلا حق: السلام علیکم کہنا ہے۔ السلام علیکم سنت ِموٴکدہ ہے اور مسلمانوں میں اُنس و محبت پیدا کرنے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے جیسا کہ یہ بات مشاہدہ میں آچکی ہے اوراس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے: واللّٰه لا تدخلوا الجنة حتی تؤمنوا ولا تؤمنوا حتی تحابوا ، أفلا أخبرکم بشيئ إذا فعلتموہ تحاببتم : أفشوا السلام بينکم (مسلم) ” اللہ کی قسم! جب تک تم موٴمن نہ بن جاؤ جنت میں داخل نہیں ہوسکتے اور جب تک تم آپس میں محبت نہ کرو موٴمن نہیں بن سکتے کیا میں تمہیں ایسی چیز کی خبر نہ دوں کہ جب تم اسے کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو… آپس میں السلام علیکم کو خوب پھیلاؤ“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو بھی ملتا آپ اسے سلام کہنے میں پہل کرتے اور جب بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں بھی سلام کہتے۔سلام کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کہے اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو، سوار پیدل چلنے والے کو سلام کہے۔ لیکن سنت کے مطابق جسے سلام کہنا چاہئے تھا، اگر وہ سلام نہ کہے تو دوسرا کہہ لے تاکہ نیکی کا موقع ضائع نہ ہو۔ مثلاً جب چھوٹا سلام نہ کہے تو بڑا کہہ لے اور اگر تھوڑے سلام نہ کہیں توزیادہ کہہ لیں تاکہ دونوں کو اجر مل جائے۔عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ” تین چیزیں ایسی ہیں جو شخص انہیں اکٹھا کر لے اس کا ایمان مکمل ہوگیا۔ اپنے آپ سے انصاف کرنا، سب لوگوں کو سلام کہنا اور تنگی کی حالت میں خرچ کرنا“ سلام کہنا سنت اور اس کا جواب دینا فرضِ کفایہ ہے کہ اگرایک شخص بھی جواب دے دے تو سب کی طرف سے کافی ہوجاتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص ایک جماعت پر سلام کہے اور ان میں سے ایک شخص سلام کا جواب دے دے تو باقی سب سے کافی ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا﴾ (النساء : ۴/۸۶) ” اور جب تمہیں کوئی سلام کہے تو تم اس سے بہتر الفاظ سے جواب دو یا (کم از کم) ویسے ہی الفاظ سے جواب دے دو“ سلام کے جواب میں صرف أھلاً وسھلا کہہ دینا کافی نہیں ، کیونکہ یہ الفاظ نہ تو سلام سے اچھے