کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 50
” اللہ سے ڈرو، اوراپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو“ ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں : أشهد علی هذا غيري فإني لا أشهد علی جور (بخاری و مسلم) ” اس معاملہ پر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لو، میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا“ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد میں سے کسی ایک کو دوسروں پر فضیلت دینے کا نام جور رکھا اور جور کا معنی ’ظلم‘ ہے جو حرام ہے۔ لیکن اگر کسی بیٹے کو ایسی چیز دے جس کی اس کو تو ضرورت ہو لیکن دوسروں کو ضرورت نہ ہو۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ تخصیص یا فضیلت کی بنا پر نہیں بلکہ حاجت کی بنا پر ہے۔ لہٰذا یہ نفقہ ہی کی صورت ہے اور جب والد وہ تمام باتیں جو اس پر واجب ہیں پوری کردے جیسے تربیت اور نفقہ وغیرہ تو وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اولاد اس سے نیکی کرے اور اس کے حقوق کا خیال رکھے۔ (۵) قریبی رشتہ داروں کا حق اسلام میں جس طرح باقی حقوق کا تحفظ ہے، ایسے ہی قرابت داروں اور رشتہ داروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا گیا ہے اور انہیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:﴿وَاٰتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّهُ﴾ (بنی اسرائیل: ۱۷/۲۶) ” قرابت دار کو اس کا حق ادا کرو“ نیز فرمایا:﴿وَاعْبُدُوْا اللّٰهَ وَلاَ تُشْرِکُوْا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إحْسٰنًا وَبِذِي الْقُرْبیٰ﴾ (النساء: ۴/۳۶) ” اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، والدین اور قرابتداروں سے بھلائی کرو“ لہٰذا ہر قریبی پر واجب ہے کہ وہ اپنے قریبی سے صلہ رحمی کرے۔ اس کی مالی اور اخلاقی لحاظ سے ہر ممکن مدد کرے اور یہ ایسی بات ہے جس کا شرع، عقل اور فطرت سب تقاضا کرتی ہیں ۔صلہ رحمی پر اُبھارنے کیلئے بہت سی احادیث ہیں ۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ نے خلقت کو پیدا کیا جب اس سے فارغ ہوا تو رحم کھڑا ہوگیا اورکہنے لگا: میں قطع رحمی سے تیری پناہ مانگتا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اچھا کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ میں اسے ملاؤں جو تجھے ملائے اور اس کو قطع کروں جو تجھے قطع کرے؟ ’رحم‘ نے کہا: کیوں نہیں ! اللہ نے فرمایا: تو یہ بات تیرے لئے منظور ہے“…پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ﴿فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ﴿٢٢﴾ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ ﴾ (محمد: ۴۷/۲۲،۲۳) ” (اے منافقو) تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہوجاؤ تو ملک میں خرابی کرنے لگو اور اپنے رشتوں کو