کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 5
جگہ انجینئرنگ یونیورسٹی کا حصہ بن چکی ہے۔ ہندوؤں نے اس واقعہ کو تاریخ بنانے کے لئے، اپنے اس ہندو طالب علم کی ’قربانی‘کو بسنت کا نام دیا اور جشن کے طور پرپتنگ اُڑانے شروع کردیئے۔ آہستہ آہستہ یہ پتنگ بازی لاہور کے علاوہ انڈیا کے دوسرے شہروں میں بھی پھیل گئی۔ اب ہندو تو اس بسنت کی بنیاد کوبھی بھول چکے مگر پاکستان میں مسلمان بسنت منا کر اِسلام کی رسوائی کا اہتمام کرتے رہتے ہیں “ (روزنامہ نوائے وقت،۴ فروری ۱۹۹۴ء) ہندو نوجوان حقیقت رائے دھرمی کو توہین رسالت کے جرم میں سن ۱۸۰۳ء بکرمی بمطابق ۱۷۴۷ عیسوی میں موت کی سزا دی گئی۔ اس وقت پنجاب کا گورنر زکریا خان تھا۔ زکریا خان ایک صحیح العقیدہ غیور مسلمان تھا۔ وہ جدید دور کے مسلمان حکمرانوں کی طرح بے حمیت نہیں تھا، اس نے توہین رسالت کے مجرم ہندو نوجوان کی موت کی سزا معاف کرنے سے قطعاً انکار کردیا۔ ہندوؤں نے حقیقت رائے دھرمی کو ’ہیرو‘ کا درجہ دے دیا اور ا س کی یاد میں ’بسنت میلہ‘ منانا شروع کردیا۔ چونکہ حقیقت رائے کی شادی ایک سکھ لڑکی سے ہوئی تھی اس لئے سکھ برادری بھی ہندوؤں کے اس ’غم‘ میں برابر کی شریک تھی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندو ستان میں ’بسنت‘ منانے کا تصور زمانہ قدیم سے تھا مگر پنجاب میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص اس تہوار کو عوامی پذیرائی اس میلے کی وجہ سے حاصل ہوئی جس کا آغاز ہندوؤں نے حقیقت رائے دھرمی کی یاد میں کیا۔ اس بات کا اعتراف متعصّب ہندو و سکھ موٴرخین بھی کرتے ہیں ۔ ایک ہندو موٴرخ ڈاکٹر بی ایس نجار (Dr. B.S. Nijjar) نے اپنی کتاب "Punjab under the later Mughals" میں حقیقت رائے کو دی جانے والی سزا کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ” حقیقت رائے باگھ مل پوری، سیالکوٹ کے کھتری کا پندرہ سالہ لڑکا تھا جس کی شادی بٹالہ کے کشن سنگھ بھٹہ نامی سکھ کی لڑکی کے ساتھ ہوئی تھی۔ حقیقت رائے کو مسلمانوں کے سکول میں داخل کیا گیا تھا جہاں ایک مسلمان ٹیچر نے ہندو دیوتاؤں کے بارے میں کچھ توہین آمیز باتیں کیں ۔ حقیت رائے نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور اس نے بھی انتقاماً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ اس جرم پرحقیقت رائے کو گرفتار کرکے عدالتی کارروائی کے لئے لاہور بھیجا گیا۔ اس واقعہ سے پنجاب کی ساری غیر مسلم آبادی کو شدید دھچکا لگا۔ کچھ ہندو افسر زکریا خان جو اس وقت گورنر لاہور تھا، کے پاس پہنچے تاکہ حقیقت رائے کو معاف کردیا جائے لیکن زکریا خان نے کوئی سفارش نہ سنی اور سزائے موت کے حکم پرنظرثانی سے انکار کردیا جس کے اجرا میں پہلے مجرم کو ایک ستون سے باندھ کر اسے کوڑوں کی سزا دی گئی۔ اس کے بعد اس کی گردن اُڑا دی گئی۔ یہ سال ۱۷۳۴ء کا واقعہ ہے جس پر پنجاب کی تمام غیر مسلم آبادی نوحہ کناں رہی۔ لیکن خالصہ کمیونٹی نے آخر کار اس کا انتقام مسلمانوں سے لیا اور سکھوں نے ان تمام لوگوں کو جو اس واقعہ سے متعلق تھے، انتہائی بے دردی سے قتل کردیا“ اسی کتاب کے صفحہ ۲۷۹ پرڈاکٹر ایس بی نجار نے تحریر کیا ہے کہ ” پنجاب میں بسنت کامیلہ اسی حقیقت رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے“!