کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 49
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا مات العبد انقطع عمله إلا من ثلاث: صدقة جارية، أو علم ينتفع به من بعدہ أو ولد صالح يدعو له
” جب بندہ مرجاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہوجاتا ہے مگر تین عمل باقی رہتے ہیں : صدقہ جاریہ، ایسا علم کہ لوگ اس کے بعد اس سے فائدہ اٹھائیں یا صالح اَولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہے“ (بخاری، مسلم)
یہ اولاد کی تربیت کا ثمر ہے۔ جب ان کی صالح تربیت کی جائے تو وہ والدین کے لئے ان کی زندگی میں بھی فائدہ مند ہوتی ہے اور ان کی وفات کے بعد بھی۔
بہت سے والدین اولاد کے حق کو معمولی سمجھتے ہیں ۔ وہ اپنی اولاد کو ضائع کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے بارے میں ان سے بازپرس ہوگی۔ وہ اپنی اولاد کے مشاغل اور ان کی سرگرمیوں سے غافل ہوتے ہیں ، انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی اولاد کیا کررہی ہے۔ وہ کہاں جاتے ہیں اور کب واپس گھر آتے ہیں ۔ وہ انہیں نیکی کی طرف توجہ دلاتے ہیں نہ بری خصلتوں سے منع کرتے ہیں اور عجیب تر بات یہ ہے کہ وہ اپنے مال کی حفاظت اور اس کو بڑھانے میں سخت حریص ہوتے ہیں اور ہر اس بات کے لئے بیدار رہتے ہیں جو اس معاملہ کی اصلاح کرے۔ حالانکہ انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس مال کو وہ بڑھا رہے ہیں وہ دوسروں کا ہے۔ رہا اولاد کا مسئلہ تو یہ ان کی نظروں میں کچھ نہیں ہوتا۔ حالانکہ ان کی نگہداشت دنیا اور آخرت دونوں لحاظ سے ان کے لئے بہتر اور مفید تھی۔ نیز جیسے والد پر بچے کی خوردونوش اور پوشاک کی ذمہ داری ہے، ایسے ہی اپنے بچے کے دل کو علم و ایمان کی غذا مہیا کرنااور تقویٰ کا لباس پہنانا بھی واجب ہے اور یہ بات پہلی سے کہیں بہتر ہے…!
اولاد کے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ ان پر دستور کے مطابق خرچ کیا جائے جس میں اِسراف ہو نہ بخل کیونکہ اولاد پر خرچ کرنا اس کی لازمی ذمہ داری ہے اور اس میں اللہ کی نعمت کا شکر بھی ہے۔
اولاد کے حق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اولاد کو ہبہ اور عطیہ دینے میں کسی ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دے کہ کسی کو کچھ دے دے اور دوسرے کو محروم رکھے۔ کیونکہ یہ جور اور ظلم ہے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ نیز اس سے خاندانی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوجاتاہے۔
صحیحین یعنی بخاری اور مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک غلام ہبہ کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتلائی تو آپ نے فرمایا: ” کیا تو نے اپنے ہر بیٹے کو ایک ایک غلام ہبہ کیا ہے؟“ بشیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: نہیں! آپ نے فرمایا: ” تو پھراس غلام کو واپس لے لے“ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
اتقوا اللّٰه واعدلوا بين أولادکم (بخاری و مسلم)