کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 48
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین سے نیکی کرنے کے عمل کو جہاد فی سبیل اللہ پر مقدم رکھا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے پوچھا: يارسول اللّٰه أي العمل أحب إلی اللّٰه؟ قال: الصلوٰة علی وقتها، قلت ثم أي قال: بر الوالدين قلت ثم أي؟ قال: الجهاد في سبيل اللّٰه (بخاری) ” اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کو کون سے عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟ فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا میں نے پوچھا پھرکون سا؟ آپ نے فرمایا: والدین سے بہتر سلوک کرنا۔ میں نے کہا: پھر کون سا؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا“ اس حدیث کو بخاری اور مسلم دونوں نے روایت کیاہے اور یہ والدین کے اس حق کی اہمیت پر دلیل ہے جسے اکثر لوگوں نے ضائع کر رکھا ہے۔ وہ ان کو ستاتے اور قطع رحمی کرتے ہیں ۔ پھر کچھ ایسے ہیں کہ انہیں حقیر سمجھتے، ڈانٹتے اور ان پر آوازیں بلند کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ عنقریب اس کا بدلہ پائیں گے!! (۴) اولاد کا حق اولاد میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں شامل ہیں ۔ اولاد کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سب سے اہم ان کی اچھی اور صالح تربیت ہے تاکہ وہ معاشرہ کے صالح فرد بن سکیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَأهلِيْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُها النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ﴾ ” اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کاایندھن انسان اور پتھر ہیں “ (التحریم: ۶۶/۶) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کلکم راع و کلکم مسئول عن رعيته، والرجل راع في أهله ومسئول عن رعيته ” تم میں سے ہر کوئی حکمران ہے اور ہر کوئی اپنی رعیت کے متعلق جواب دہ ہے اور آدمی اپنے گھر کا حکمران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی“ (بخاری و مسلم) اولاد والدین کے لئے امانت ہے اور قیامت کے دن وہ اولاد کے متعلق جواب دہ ہوں گے۔ اگر انہوں نے اولاد کی تربیت اسلامی انداز سے کی ہوگی تو وہ والدین کے لئے دنیا وآخرت میں باعث ِراحت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ ﴾ (الطور:۵۲/۲۱) ” جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان لانے میں ان کے پیچھے چلی ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے تک) پہنچا دیں گے اور والدین کے اَعمال سے کچھ کم نہ کریں گے۔ ہر شخص اپنے کئے ہوئے اعمال کے عوض رہن ہے“