کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 46
دیا ہو، وہ بجا لایا جائے اور جس سے منع کیا ہو یا سرزنش کی ہو، اس سے پرہیز کیا جائے اور اس بات پر ایمان ہو کہ آپ کی راہِ ہدایت تمام راہوں سے بہتر، آپ کی شریعت سب شریعتوں سے اکمل اور آپ کی شریعت پر کسی بھی قانون کو مقدم نہ کیا جائے خواہ اس کا ماخذ کچھ بھی ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴾ (النساء :۴/۶۵) ” تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ موٴمن نہیں ہوسکتے جب تک آپ کو اپنے تنازعات میں منصف نہ بنائیں او رجو فیصلہ آپ کریں ، اس سے اپنے دل میں کوئی گھٹن محسوس نہ کریں ، بلکہ اس فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کردیں ۔ “ … اور فرمایا: ﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ اللّٰهَ وَيَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ﴾(آلِ عمران:۳/۳۱) ” آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے“ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کی شریعت اور ہدایت کا ہر حال میں دفاع کیا جائے۔ اگر حالات اسلحہ کا تقاضا کرتے ہوں اور انسان اس کی قدرت بھی رکھتا ہو تو قوت کے ساتھ دفاع کرے جب دشمن دلائل و شبہات سے حملہ آور ہو تو علم سے اس کا دفاع کرے، اس کے دلائل و شبہات اور تخریبی بیانات کا اِزالہ کرے۔ کسی موٴمن کے لئے ممکن نہیں کہ وہ کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت یا آپ کی ذاتِ کریم پرحملہ کرتے سنے پھر خاموش رہے جبکہ وہ اس کے دفاع کی قدرت بھی رکھتا ہو۔ (۳) والدین کا حق اولاد پر والدین کو جو فضیلت حاصل ہے، اس کا انکار ممکن نہیں کیونکہ والدین ہی اولاد کے وجود میں آنے کا ذریعہ ہیں لہٰذا ان کا اس پر بڑا حق ہے۔ ان دونوں نے اسے بچپن میں پالا، اسے ہر طرح کا آرام پہنچانے کے لئے خود تکلیفیں برداشت کیں ۔ اے انسان! تیری ماں نے تقریباً نو ماہ تک تجھے اپنے پیٹ میں اُٹھائے رکھا اور اس کا خون تیری غذا کا باعث بنا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿حَمَلَتهُُ أمُّهُ وَهناً عَلٰی وَهنٍ﴾ (لقمان :۳۱/۱۴) ” اس کی ماں نے اسے تکلیف پر تکلیف اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا“ پھر اس کے بعد دو سال دودھ پلانے کا معاملہ ہے جس میں تھکن بھی ہوتی ہے، کوفت بھی اور صعوبت بھی۔ اسی طرح باپ تیری زندگی اور بقا کے لئے بچپن سے ہی دوڑ دھوپ کرنے لگا حتیٰ کہ تو خود کھڑا ہونے کے قابل ہوگیا اور تجھے قابل عزت بنانے کے لئے کوشش کرتا رہا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے