کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 45
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا إلاَّمَتٰعُ الْغُرُوْرِ﴾ (آلِ عمران: ۳/۱۸۵) ” تو جو شخص آگ سے بچا لیا گیا اورجنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے“ (۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق مخلوق کے حقوق میں سے آپ کا حق سب سے زیادہ اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ إنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا، لِّتُوٴمِنُوا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلهِ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَةً وَّأصِيْلًا ﴾(الفتح: ۴۸/۸،۹) ”ہم نے آپ کو گواہ، خوشخبری دینے اور ڈرانے والابنا کر بھیجا ہے تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور دل و جان سے اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم و توقیر کرو“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا يوٴ من أحدکم حتی أکون أحب إليه من ولدہ ووالدہ والناس أجمعين ” تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک ایماندار نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کی اولاد، والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں “ (بخاری و مسلم) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق یہ ہیں کہ آپ کی عزت افزائی ، آپ کا احترام اور آپ کی تعظیم کی جائے۔ تعظیم ایسی ہونی چاہئے جس میں مبالغہ ہو، نہ تقصیر۔ آپ کی عزت افزائی اور تعظیم اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آپ کی مکمل اطاعت کی جائے۔ جیسا کہ آپ کے صحابہ کرام کرتے تھے۔ اس اطاعت کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے …قریش نے جب عروہ بن مسعود ثقفی کو صلح حدیبیہ کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کی بات چیت کرنے کے لئے بھیجا تو (واپس جاکر) اس نے کہا: ” میں شاہِ ایران، شاہِ روم اور شاہِ حبشہ کے دربار میں گیا ہوں ، مگر میں نے کسی بادشاہ کے ساتھیوں کو اس کی ایسی تعظیم کرتے نہیں دیکھا جیسے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اصحاب، آپ کی تعظیم کرتے ہیں ۔ جب وہ انہیں حکم دیتے ہیں تو جلد از جلد بجا لاتے ہیں ۔ جب وہ وضو کرتے ہیں تو اس کے وضو کے پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ بات کرتے ہیں تو خاموش ہوجاتے ہیں اور تعظیم کی وجہ سے ان کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتے۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس انداز سے آپ کی تعظیم کیا کرتے تھے باوجودیکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی فطرت میں مکارمِ اخلاق، نرم پہلو اور سہولت ِنفس ودیعت کر رکھے تھے اور اگر آپ سخت طبیعت والے ہوتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے ہم نشین نہ بنتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کی تصدیق کی جائے، جس بات کا آپ نے حکم