کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 4
تہواروں کے مذہبی پس منظر کا انہیں علم نہیں ہے۔ یہ بھی جہالت ِجدیدہ کی ایک صورت ہے کہ کسی چیز کے بارے میں علم نہ ہونے کے باوجود اس کے متعلق قطعی رائے کا اظہار کردیا جاتا ہے۔ جو لوگ بسنت کو محض موسمی اور ثقافتی تہوار کہنے پراِصرار کرتے ہیں ، وہ بھی اسی لاعلمی کا شکار ہیں۔ وہ جان بوجھ کر اس ’لاعلمی‘ کا شکار رہنا چاہتے ہیں ، تو یہ ان کا اپنا انتخاب ہے، مگر انہیں رائے عامہ کو گمراہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے!! آج کل بسنت اور پتنگ بازی کو لازم و ملزوم تصور کیا جاتا ہے، حالانکہ قدیم تاریخ میں بسنت کے تہوار کے ساتھ پتنگ بازی کا ذکر نہیں ملتا۔ آج جس انداز میں بسنت منانے کا مطلب ہی پتنگ بازی لیا جاتا ہے، یہ تصور بہت زیادہ پرانا نہیں ہے۔ مزید برآں بسنت کے موقع پر پتنگ بازی کا شغل بھی لاہور اور اس کے گردونواح میں برپا کیا جاتاہے، اس کا اہتمام ہندوستان یاپنجاب کے دیگر علاقوں میں اس انداز سے نہیں کیا جاتا۔ آج سے دس پندرہ سال پہلے پنجاب کے قدیم ترین شہر ملتان میں بسنت کے موقع پر پتنگ بازی کا تصور تک نہیں تھا۔ یہی صورت بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، راولپنڈی اور سرگودھا جیسے بڑے شہروں کی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر لاہور میں بسنت کے موقع پر پتنگ بازی کا شغل اس قدر جوش و خروش سے کیوں برپا کیا جاتا ہے؟ تاریخ اور مذہب کے آئینے میں جھانک کر اس سوال کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔ اگر بسنت محض موسمی تہوار ہوتا تو یہ صرف لاہورہی نہیں ، پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی اتنا ہی مقبول ہوتا۔ اندرونِ سندھ میں جہاں اب بھی ہندوؤں کی کثیر تعداد رہائش پذیر ہے، وہاں پتنگ بازی یا بسنت کی وہ ہنگامہ آرائی نظر نہیں آتی جس کا مظاہرہ لاہور یا اس کے گردونواح میں کیا جاتاہے۔ایسی صورتحال بلاوجہ نہیں ہے۔ اس کا ایک مخصوص تاریخی پس منظر ہے۔ روزنامہ نوائے وقت میں بسنت کے بارے میں تجزیاتی رپورٹ شائع ہوئی، اس کے متعلقہ حصے ملاحظہ فرمائیے: ” بسنت خالص ہندو تہوار ہے اور اس کا موسم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں بسنت کی کہانی ہر سکول میں پڑھائی جاتی ہے لیکن لاعلمی یا بھارتی لابی کی کوششوں سے بسنت کو اب پاکستان میں مسلمانوں نے موسمی تہوار بنا لیا ہے۔ بسنت کی حقیقت کیا ہے اور اس کا آغاز کیسے ہوا، اس بارے میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قریباً دو سو برس قبل لاہور کے ایک ہندو طالب علم حقیقت رائے نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے خلاف دشنام طرازی کی۔ مغل دور تھا اورقاضی نے ہندو طالب علم کو سزائے موت سنا دی۔ اس ہندو طالب علم کو کہا گیا کہ وہ اسلام قبول کرلے تو اسے آزاد کردیا جائے گا مگر اس نے اپنا دھرم چھوڑنے سے انکار کردیا۔ چونکہ اس نے اقرارِ جرم کر لیا تھا، لہٰذا اسے پھانسی دے دی گئی۔ پھانسی لاہور میں علاقہ گھوڑے شاہ میں سکھ نیشنل کالج کی گراؤنڈ میں د ی گئی۔ قیام پاکستان سے پہلے ہندوؤں نے اس جگہ یادگار کے طور پرایک مندر بھی تعمیر کیا لیکن یہ مندر آباد نہ ہوسکا اور قیامِ پاکستان کے چند برس بعد سکھ نیشنل کالج کے آثار بھی مٹ گئے۔ اب یہ