کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 31
کروانا شروع کیا جس سے مختلف یونیورسٹیوں اور خلیجی ممالک سے طلبہ شرکت کے لئے آنا شروع ہوئے۔
٭ گذشتہ سال ارجنٹائن سے ایک دوست محمد عیسیٰ اپنی اہلیہ سمیت تشریف لائے او رکہا کہ میں قصیم میں شیخ عثیمین کے پاس جارہا ہوں ، وہاں ۵ ہفتوں کے لئے وہ کورس کرواتے ہیں ۔ چنانچہ گذشتہ سال ۵۰۰ سے زائد طلبہ اور ۶۰ سے زائد عورتوں اور لڑکیوں نے اس خصوصی کورس میں شرکت کی۔ یہ طلبہ دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی رہائش او رکھانے پینے کے اِخراجات سبھی شیخ رحمہ اللہ کے ذمہ تھے۔
٭ شیخ نے کم و بیش ۴۲ کتب اور رسائل ترتیب دیئے۔ انہوں نے سب سے پہلے ۱۹۶۰ء میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کتاب کی تلخیص کی، جو عقیدۂ توحید کے متعلق تھی او رامام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے شام کے شہر حماة کے لوگوں کے مطالبہ پر لکھی تھی۔ آپ کی کتابیں بے شمار اداروں سے شائع ہوئیں اور مختلف زبانوں میں ان کے تراجم بھی کئے گئے۔
٭ سعودی ریڈیو کے پروگرام ’نورعلی الدرب‘ سے بھی آپ کے خطابات اور فتاویٰ جات نشر ہوتے رہے ہیں ۔
٭ شیخ کے فتاویٰ جات کی اب تک کم و بیش ۱۸ جلدیں شائع ہوچکی ہیں ۔ بہت سی کتابیں او ررسائل کیسٹوں سے تیار ہوکر مارکیٹ میں آئے ہیں ۔ ایک مدت سے شیخ نے مختلف ممالک میں ٹیلی فونک خطاب کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا تھا۔ راقم نے بھی امریکہ، برطانیہ اور پاکستان سمیت مختلف ممالک میں لوگوں سے ان کے خطابات کی شہرت اور چرچا سنا۔
٭ آپ کی منکسر مزاجی کی یہ حالت تھی کہ علم کی گہرائی اور وسعت کے باوجود فتویٰ دینے میں جلد بازی کی بجائے غوروفکر فرماتے اور اپنے استاذِ گرامی شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں اکثر مسائل کیلئے ان سے رجوع فرماتے۔
آپ کے آخری وقت کے رفیق سلیمان بن عبدالرحمن بطی کے مطابق شیخ کی آخری وصیت یہ تھی کہ
” قرآن کریم میں تدبر اور غور کریں ، اس کی تفسیر سیکھیں ، اِسلام کو مشرق و مغرب اور شمال سے جنوب تک پہنچا دیں او را س کے لئے سارے وسائل استعمال کریں ۔“
بلاشبہ ان کی شخصیت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مصداق ہے کہ
” جب آدمی فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اَعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے مگر تین چیزیں مرنے کے بعد بھی اَجروثواب کا باعث رہتی ہیں ۔ صدقہ جاریہ یا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں ۔ یا نیک اولاد جواس کے لئے دعائے مغفرت فرمائے“
ان کے کتنے اَعمال ہیں جو صدقہ جاریہ کے ضمن میں ہیں ۔ کتنی مساجد، مدارس، داعی، طالب علم،کتب اور کتنی کیسٹیں ہیں ، جن سے اُمت ِمسلمہ فائدہ اٹھا رہی ہے۔نہایت افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس موقع پرپاکستانی ذرائع اَبلاغ اور حکومت پاکستان کی کج روی بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ ’نورجہاں ‘ جیسی فاحشہ رقاصہ و مغنیہ اورننگ ِدین و ملت عورت کی وفات پر اَخبارات کے خصوصی رنگین ایڈیشن چھپے۔ صدرِ پاکستان جیسی ’دینی شخصیت‘ کے تعزیتی پیغامات جاری ہوئے، مگر اس عالم بے بدل کی وفات پرکسی طرف سے کوئی ہلچل نہیں مچی۔ اِنا للّٰه وانا اليه راجعون!