کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 30
موت ُالعالم موت العالم جناب عبدالمالک مجاہد
مدیر مکتبہ دار السلام ،الریاض
مردِ صالح اور علم وعمل کا روشن ستار ہ
الشیخ محمد بن صالح بن محمد بن عثیمین
۱۰ جنوری ۲۰۰۱ء کی شام چھ بجے عالم اسلام ایک محدث ، فقیہ، جلیل القدر عالم دین اور ایک مربی وخطیب سے محروم ہوگیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ذی روح کا انجام بالآخر موت ہے مگر علماءِ ربانی کی وفات سے جو خلا پیدا ہوتا ہے، وہ اکثر پر نہیں ہوتا۔ شیخ محمد العثیمین جیسی شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں ، ان جیسے علماء حقیقت میں اپنے علم، نیکی،تقویٰ، زہد، تعلیم دین اور لوگوں کی خدمت کی بدولت چمکتے ستارے ہوتے ہیں ۔بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” اللہ تعالیٰ (زمین سے) ایک ہی دفعہ علم نہیں چھین لیتا، بلکہ علماکی وفات کے ذریعے آہستہ آہستہ علم اُٹھالیتا ہے“
شیخ مرحوم کی زندگی گونا گوں دینی خدمات سے بھری ہوئی ہے۔ آپ نے ۱۹۵۱ء میں مختلف مساجد میں درس و تدریس سے دینی خدمات کا آغاز کیا۔ عنیزہ کی جامع مسجدمیں پہلا جمعہ ۲ رجب ۱۳۷۶ھ (۱۹۵۶ء) میں پڑھایا اور عنیزہ میں آخری نمازِ استسقاء (بارش طلب کرنے کی نماز) جو ۳ شعبان ۱۴۲۱ھ کو عیدگاہ میں پڑھائی۔ آپ کی دینی جدوجہد کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو شاہ فیصل ایوارڈ بھی دیا گیا۔ آپ کی چند نمایاں خدمات کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے :ٴ ٭ ٭ آپ کا عنيزه کی جامع مسجدمیں ۴۵ سال مسلسل عقیدہ، فقہ ، حدیث، تفسیر اور دیگرعلوم پر درس دیتے رہنا۔ سرکاری تعلیمی اداروں خصو صا ً قصیم کے شریعت کالج میں آپ کی تدریسی خدمات اس کے علاوہ ہیں ۔
٭ اِفراط و تفریط سے ہٹ کر آپ سلف صالحین کے طریقے پر راہِ اعتدال کے داعی تھے، دیگر ممالک کے علماء اور رہنماؤں کو بھی تلقین کرتے اور دین میں بے جا تشدد سے منع کرتے تھے۔
٭ طالب علموں سے آپ کو بہت محبت اور خصوصی شغف تھا جس کی وجہ سے بے شمار طلباء اندرون اور بیرونِ مملکت سے آپ کے حلقہ درس میں شمولیت کے لئے کھنچے چلے آتے تھے۔ اس کا بہت بڑا شاہدیہ واقعہ ہے کہ ان کے پرانے مٹی کے بنے ہوئے کچے مکان میں ایک مرتبہ شاہ خالد بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے۔ انہوں نے گھر کی تعمیر نو کے لئے بڑی رقم کی پیش کش کی، مگر شیخ نے شاہ خالد کو تجویز دی کہ اس کے بجائے طلباء کے لئے عمارت بنا دیں تاکہ وہاں طلباء قیام کرسکیں ، چنانچہ شاہ خالد کے حکم سے جامع مسجد کو وسیع کیا گیا اور طلبہ کے لئے عمارت بھی بنا دی گئی۔
٭ آپ کے پاس مختلف ممالک سے طلبہ پڑھنے کے لئے آتے اور ان سے علم حاصل کرتے اور یہ سلسلہ سارا سال جاری رہتا … گذشتہ چار برس سے انہوں نے گرمیوں کی چھٹیوں میں طلبہ کو ۵ ہفتوں کا خصوصی کورس