کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 20
بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
تعلیم وتربیت اور شیخ کے اساتذہ
شیخ نے صغر سنی میں ہی قرآنِ مجید حفظ کرلیا تھا اور اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے نانا شیخ عبدالرحمن سلیمان الدامغ سے کیا۔ اس کے بعد شیخ علامہ عبدالرحمن بن ناصر سعدی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقہ درس میں شامل ہوگئے جو ان کے پہلے باقاعدہ اُستاد تھے۔ ان سے توحید، تفسیر، سیرتِ نبویہ، حدیث، نحوو صرف، فقہ ووراثت، اُصولِ فقہ اور اصولِ حدیث کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔ آپ نے اپنے اس استاذ سے بہت استفادہ کیا جو علم و عمل کا شاہکار، حسن اَخلاق کا پیکر، زہد و تقویٰ میں یکتا اور تواضع و فراخدلی میں بے مثل تھا۔ شیخ اپنے استاد کے طریقہ تدریس سے بہت متاثر تھے اور انہوں نے تدریس میں انہی کے نقش قدم کی پیروی کی۔
شیخ کی پروان ایک خالص علمی ماحول میں ہوئی۔ ہر چند کہ آپ کو بے شمار شیوخ سے شرف ِتلمذ حاصل ہوا، مگرجس استاذکا آپ کی زندگی پر گہرا اَثر تھا وہ عنیزہ کے یہی ممتاز عالم شیخ عبدالرحمن سعدی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ شیخ عہد ِطفولت سے لے کر ایک طویل عرصہ ان کے زیر تربیت رہے۔ عظیم استاد نے اپنی کمالِ فراست سے ہونہار شاگرد میں نبوغت (مہارت) اور قابلیت کے آثار دیکھ لئے تھے چنانچہ جب شیخ کے والد نے عنیزہ سے ریاض منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تو شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ہونہار شاگرد محمد بن صالح العثیمین کو اپنے حلقہ درس سے جدا کرنے سے انکار کردیا اور ان کے والد سے کہا کہ محمد کو چھوڑ جائیے، وہ ہمارے پاس علم سیکھےگا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے دوران ہی عنیزہ کے معہد علمی میں داخلہ لیا اور وہاں کی تعلیم دو سال میں مکمل کرلی۔ اس کے بعد کلیة الشریعة میں داخل ہوئے، ۱۳۷۷ھ میں آپ وہاں سے فارغ ہوئے۔اس کے ساتھ ساتھ شیخ سعدی سے بھی تحصیل علم کا سلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ ان کا یہ عظیم استاذ عالم آخرت کو سدھار گیا۔
شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ ایک عظیم المرتبت شخصیت اور بھی تھی جن کا شیخ کی زندگی پر خاصا اثر تھا، وہ عظیم شخصیت سماحة الشیخ عبد العزیزبن عبد الله بن بازرحمتہ الله علیہ کی تھی جن سے شیخ بہت متاثر تھے جیسا کہ شیخ محمد بن صالح العثیمین نے اپنے بارے میں حدیث میں دلچسپی اور وابستگی کے ضمن میں خود ذکر کیا ہے۔آپ نے ان سے صحیح بخاری اورعلامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی بعض کتب پڑھیں ۔
آپ کے دیگر اساتذہ میں شیخ علی بن احمدصالحی،شیخ محمد بن عبدالعزیز مطوع،علامہ کبیرشیخ محمد الامین بن محمد المختار شنقیطی (موٴلف اَضواء البيان) اور شیخ عبدالرحمن بن علی بن عودان رحمہم اللہ شامل ہیں ۔
شیخ کی علمی خدمات
شیخ مرحوم اپنے استاذ شیخ سعدی کی وفات کے بعد ان کی جگہ پر جامع مسجد عنیزہ میں اِمامت