کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 2
کتاب: محدث شمارہ 245 مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور ترجمہ: بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکرونظر ”بسنت“ محض موسمی تہوار نہیں ! مذہب اور ثقافت ایک دوسرے پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے اثر پذیر بھی۔ ہمارے ہاں عام طور پر مذہب اور ثقافت کو دو الگ الگ تہذیبی دائروں کے طور پر زیربحث لایا جاتا ہے، یہ زاویہٴ نگاہ قطعاً درست نہیں ۔ سیکولر طبقہ اپنے مذہب بیزار رویے کی وجہ سے ثقافتی اُمور میں مذہب کے کردار کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، لہٰذا جہاں کہیں مذہب اور ثقافت کے درمیان رشتوں کی بات ہوتی ہے، وہ ہمیشہ مذہب کی تخویف اور ثقافت کی تعریف و توصیف کا اُسلوب اختیار کرلیتا ہے۔ یہ طبقہ تنافض فکر میں مبتلا ہے۔اسے مذہب سے والہانہ وابستگی تو سخت ناگوار گذرتی ہے، مگر ثقافت سے جنون کی حد تک لگاؤ پر کسی قسم کا عقلی اعتراض نہیں ہوتا۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ سیکولر طبقہ نے شعوری یا غیر شعوری طور پر ثقافت کو ہی ’مذہب‘ کا درجہ دے دیا ہے۔ ہمارے ہاں مغرب زدہ روشن خیالوں کا ایک گروہ ثقافت کو تو قدیم اور پائیدار سمجھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ایک قوم پر ثقافت کے اثرات اس قدر گہرے ہوتے ہیں کہ مذہب انہیں جڑ سے اکھاڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا، مگر ایسا محض وہی لوگ سوچتے ہیں جو انسانی تاریخ کے ارتقا کو سطحی انداز سے لیتے ہیں ۔ اگر وہ تہذیب و تمدن کے آغاز و ارتقا پر غور فرمائیں تو انہیں اپنی اس سطحی سوچ پر شاید ندامت کا احساس ہو کیونکہ جن اَقدار اور سرگرمیوں کو آج وہ خالصتاً ثقافتی اور تہذیبی اَقدار سمجھتے ہیں ، ان کا حقیقی پس منظر مذہبی ہی ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ کے دورِ اوّل میں مذہب کا انسانی معاشرے پر بہت گہرا اثر رہا ہے۔ اس دور میں مذہبی اور الہامی تعلیمات کے خلاف عقلی بغاوت کا تصور تک نہیں تھا، اس لئے قدیم انسانی معاشرے میں کسی ایسے تہوار یا ثقافتی سرگرمی کا رواج پانا ممکن نہیں تھا جس کی تائید مذہبی تعلیمات سے نہ ہوتی تھی۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کرہٴ ارض پر قدم رکھنے والا پہلا انسان خدا تعالیٰ کا فرستادہ پیغمبر تھا یعنی حضرت آدم علیہ السلام۔ اس کے بعد انبیاء کرام علیہم السلام کا ایک طویل سلسلہ ہے جو وقتا ً فوقتا ً مبعوث ہوتے رہے۔ انبیاءِ کرام علیہم السلام کے زیر اثر جو تہذیب و تمدن فروغ پایا، اس کی اساس یقینا مذہبی ہی تھی۔ اگرچہ بعد میں مذہب سے جزوی روگردانی کی صورتیں بھی نمودار ہوئیں لیکن مذہب کی اساسی تعلیمات کا اثر کبھی بھی کلیة ً ختم نہیں ہوا۔ کسی ثقافتی سرگرمی کے صحیح یا غلط، جائز یا ناجائز قرار دینے میں ہمیشہ مذہب کو معیا راور میزان تسلیم کیا گیا۔ایسی ثقافتی سرگرمیاں جومذہب کے اَساسی تصورات سے