کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 15
تک نہیں پہنچتی تھیں مگر اکٹھی ہونے کی صورت میں تکمیل نصاب سے زکوٰة پڑ جاتی ہے۔( صحیح بخاری) شرکاءِ دکان کا معاملہ بھی اسی طرح ہے، بقدرِ حصص سب پر زکوٰة واجب ہوتی ہے۔ سوال : صحیح مسلم کے حوالے سے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولا يقل العبد لسيدہ مولاي فان مولاکم اللّٰه عزوجل اس حدیث کا سیاق و سباق کیا ہے؟ سورة البقرہ کے آخر میں بھی مولانا ’ربّ العٰلمین‘ کے لئے آیا ہے، وضاحت فرمائیں ؟ جواب:صحیح مسلم میں مصنف نے اعمش پر اس میں اختلاف ذکرکیا ہے۔ بعض راویوں نے اعمش سے ولایقل العبد لسیدہ … کی زیادتی کو ذکر کیا ہے جبکہ بعض نے حذف کردیا ہے۔ قاضی عیاض نے کہا: زیادہ صحیح بات اس کا حذف کرنا ہے اور قرطبی نے کہا: مشہور اس کا حذف کرنا ہے، پھر کہا وإنما صرنا الی الترجيح للتعارض مع تعذرالجمع وعدم العلم بالتاريخ ” تعارض کی بنا پر ہم نے ترجیح کا مسلک اختیا رکیا ہے کیونکہ دونوں احادیث میں تطبیق مشکل ہے اورتاریخ کا علم نہ ہونے کی بنا پر ناسخ ومنسوخ بھی نہیں قرار دیا جاسکتا۔‘‘ آپس میں مخاطبت کے آداب کے سلسلہ میں اس کا بیان کیا گیا ہے۔ لفظ مولیٰ کے استعما ل کی مختلف صورتیں ہیں :بلا اضافت کے اس کا اطلاق صرف ربّ تعالیٰ پر ہے۔ اور اضافت کی صورت میں اللہ کے علاوہ دوسروں پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری میں باب کراہية التطاول علی الرقيق میں ہے وليقل سيدي مولاي لہٰذا اصل جواز ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو فتح الباری (۵/۱۸۰) سوال: ایک کنواری لڑکی کی منگنی ایک لڑکے سے ہوئی اور ان دونوں نے آپس میں شادی سے پہلے ہی زنا کرلیا، کیا اب ان کا آپس میں نکاح جائز ہے ؟ جواب: زانی اور زانیہ کا نکاح آپس میں ناجائز ہے ۔ قرآنِ کریم میں ہے ﴿اَلزَّانِیْ لاَ يَنْکِحُ اِلاَّ زَانِيَةٍ أوْ مُشْرِکَةٍ … وَّحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلیٰ الْمُوٴْمِنِينَ﴾ ” زانی مرد نہیں نکاح کرتا مگر زانیہ یا مشرکہ عورت سے اور انہیں مسلمانوں پر حرام کیا گیاہے “ ۔اس طرح قصہ مَرثد میں بھی عدمِ جواز کی دلیل ہے جس میں ہے کہ مَرثد مکہ میں داخل ہوے، وہاں انہوں نے عناق نامی ایک بدکارہ کودیکھا۔اس بدکار عورت نے مرثد کو بدکاری کی دعوت دی لیکن مرثد نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد جب مرثد مدینہ منورہ آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا میں عناق سے نکاح کرلوں تو آپ نے کوئی جواب نہ دیا، جس پر مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی… البتہ اگر وہ سچی توبہ کرلیں تو پھر ان کے نکاح کا جواز ہے۔ صحیح حدیث میں ہے: فإن العبد إذا اعترف بذنبه ثم تاب، تاب عليه ” جب آدمی اپنے گناہ کا اعتراف کرکے اسکے بعد تو بہ کرلیتا ہے تو اللہ اس کو معاف فرما دیتا ہے “