کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 13
پروان چڑھائیں گے، وہاں ہندوؤں کے تہوار منانے کو لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ کیامسلمانوں کے اپنے تہوار منانے کے لئے بھی سکولوں میں اس قدر تہذیبی جوش و خروش کامظاہرہ کیا جاتا ہے؟ اس کا جواب والدین کو بخوبی ہے۔اس بارے میں والدین کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جب بچے والدین کا جوش و خروش دیکھتے ہیں تو اس کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں ۔ بعض افراد کو دیکھا گیا ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ مل کر پتنگ لوٹنے میں مصروف ہوتے ہیں ۔
ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ کہیں ہم شعوری یا غیر شعوری طو رپر ایک گستاخِ رسول کی یاد میں منعقد کئے جانے والے بسنت میلہ میں شریک ہو کر توہین رسالت کا ارتکاب تو نہیں کررہے؟ کیا ہم ہندوؤں کے مذہبی تہوار کو منا کر دوسری قوموں سے مشابہت کے گناہ کا اِرتکاب تو نہیں کررہے؟ کیا ہمارا بسنت منانے کا طور طریقہ لہو و لعب کی تعریف میں شامل تو نہیں ہے؟ اہل اقتدار کو بھی ضرور سوچنا چاہئے کہ وہ بسنت جیسے تہواروں کی سرپرستی کرکے کہیں مسلمانوں کے اصل تہواروں کے متعلق عام لوگوں میں عدمِ دلچسپی کے جذبات کو تو پروان نہیں چڑھا رہے؟ بسنت کے نام پر رقص و سرور، ہلڑ بازی، ہاؤ ہو،شورشرابہ، چیخم دھاڑ، فائرنگ، وغیرہ مہذب قوموں کا شعار نہیں ہے۔ ہمیں رسالت مآب کا یہ فرمان بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا:
” تمام قوموں کی عیدیں ہیں ، ہماری عیدیں عیدالفطر اور عیدالاضحی ہیں !“
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” جو کسی قوم سے مشابہت کرے گا وہ انہی میں اٹھایا جائے گا“ (ابوداود) (محمد عطاء اللہ صدیقی)