کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 12
جاتی تھی کہ وہ اپنے دفتر کے افسروں کو پتنگ بازی یا ہلڑ بازی میں شریک ہونے سے منع کریں ۔ پتنگ بازی کو سرکاری قواعد میں وقار سے گری ہوئی تفریح سمجھا جاتا تھا۔ سن ۲۰۰۰ء میں پہلی مرتبہ لاہور میں بسنت کا تہوار سرکاری سرپرستی میں منایا گیا، پتنگ بازی کے باقاعدہ مقابلے کرائے گئے اور جیتنے والوں کو انعام واِکرام سے نوازا گیا۔ لاہور کارپوریشن اور ہارٹی کلچرل اتھارٹی نے مال روڈ اور دیگر اہم شاہراہوں پر پتنگ نما کتبے آویزاں کئے جو کئی ماہ تک یونہی لگے رہے۔ حکومت ناجائز اسلحہ کی پکڑ دھکڑ کے بارہا اعلانات کرتی رہتی ہے، مگر بسنت کے موقع پر بے تحاشا فائرنگ کرنے والوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ دھات کی ڈوروں کے استعمال کی وجہ سے واپڈا کا بجلی سپلائی کرنے کا نظام شدید متاثر ہوتا ہے، مگر اس جرم کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی کاروائی نہیں کی جاتی۔ واپڈا کی اپیلیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں ،اسے ہر سال کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
بسنت جیسے تہوار کے متعلق جنون خیزی پیدا کرنے میں سب سے زیادہ کردار ذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے ایک مخصوص طبقہ نے ادا کیا ہے جوتہذیب و ثقافت کے نام پر اس ملک میں بیہودگی او ر اِباحیت کو رواج دینا چاہتا ہے۔ بسنت کے موقع پر ٹیلی ویژن پر ’پتنگ باز سجنا‘ جیسے واہیات گانوں کوبار بار پیش کیا جاتا ہے، ا خبارات میں خصوصی ایڈیشن شائع کئے جاتے ہیں جس میں بازاری عورتوں کو بسنتی لباس میں دکھایا جاتا ہے۔ اَخباری رپورٹوں میں بار بار بسنت کے اِنتظامات کا تذکرہ کیا جاتاہے اور اِعلانات شائع کئے جاتے ہیں کہ فلاں فلاں مقامات پر بسنت انتہائی جوش و خروش سے منایا جائے گا۔ یہ ساری سرگرمیاں نوجوانوں میں بسنت کے متعلق آتش شوق کو بھڑکا دیتی ہیں ۔
سکولوں میں اساتذہ بچوں میں بسنت کے متعلق صحیح شعور پیدا کرنے کی بجائے اُلٹا انہیں ان تقریبات میں والہانہ طور پر شریک ہونے کے لئے اکساتے ہیں ۔ کلاس میں پوچھا جاتا ہے کہ ” بچو! اس سال بسنت منانے کے لئے آپ نے کیا کیا انتظام کیا ہے؟“ اساتذہ کی اپنی معلومات بھی بے حد ناقص ہیں ، وہ اسے محض موسمی تہوار ہی سمجھتے ہیں ۔ انگلش میڈیم سکولوں میں بے حد اہتمام سے بسنت منایا جاتاہے۔ طلباء و طالبات مل کر گڈیاں اور گڈے اُڑاتے ہیں۔ ایسی مخلوط مجالس جنسی ہیجان خیزی اور آوارگی کو پروان چڑھاتی ہیں ۔ کارپوریشن اور حکومت کی زیرنگرانی چلنے والے سکولوں میں بھی بقدرِ استعداد اس غیر اسلامی تہوار کا جشن برپا کیا جاتاہے۔
ایک اسلامی مزاج رکھنے والی خاتون، جس کے بچے ڈویژنل پبلک سکول میں پڑھتے ہیں ، نے بتایا کہ سکول کے پرنسپل نے سخت ہدایات جاری کی ہیں کہ بسنت کے موقع پر ہر طالب علم کم از کم ایک ’گڈی‘ کا بندوبست ضرور کرکے آئے اور ہر طالبہ کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ ایک ڈور خرید کر لائے۔ نہایت تاسف کامقام ہے کہ ہمارے سکول جہاں توقع کی جاتی ہے کہ طلباء میں اسلامی شعائر سے محبت کو