کتاب: محدث شمارہ 245 - صفحہ 11
پتنگ لوٹنے کے لئے لڑکے بالے ہاتھوں میں ڈھانگے لئے سڑکوں پر دیوانہ وار پھرتے ہیں ، انہیں تیز رفتار ٹریفک کا احساس ہوتا ہے، نہ انہیں مکانات کی چھتوں سے گرنے کا احتمال روکتا ہے۔ کٹی ہوئی پتنگ دیکھتے ہی ان پر دیوانگی اور پاگل پن طاری ہوجاتا ہے۔ گذشتہ سال ہمارے مکان کے بالکل سامنے ایک درخت پر اَٹکی ہوئی پتنگ کو اُتارتے ہوئے ایک دس سالہ بچہ شاخ ٹوٹنے کی وجہ سے زمین پر گرپڑا۔ ابھی چند روز پہلے ایک معاصر روزنامے میں ایک بچے کی تصویر شائع ہوئی جس کے دونوں بازو گذشتہ سال بسنت کے موقع پر کاٹنے پڑے۔ تیز دھار ڈور کی وجہ سے کئی مرتبہ راہ گیروں کی گردنیں کٹ جاتی ہیں ۔مکانوں سے گر کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد خاصی تشویش ناک ہے۔ آج کل بسنت کا تہوار محض پتنگ بازی تک محدود نہیں رہا، اس میں آتشیں خودکار اسلحہ سے فائرنگ کا خطرناک رُجحان بھی فروغ پاچکا ہے۔ بسنت کی رات پورا شہر کان پھاڑنے والی فائرنگ کی زد میں رہتا ہے۔ کوئی اگر مریض ہے اور شور سے پریشان ہوتا ہے، تو جانے اپنی بلا سے ، بسنت بازوں کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی دشمن ملک نے لاہور پر چڑھائی کردی ہے، ایک دھماکوں کا سلسلہ ہے جو طلوعِ سحر تک جاری رہتا ہے۔ فائرنگ کے ساتھ ڈیک لگا کر اونچی آواز میں موسیقی کے نام پر طوفانِ بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے۔ پتنگ کٹنے یا کاٹنے پر لڑکیاں لڑکے مل کر مجنونانہ اُچھل کود کرتے ہیں ۔ چھتوں پر دندناتے ہیں اوربے تحاشا ہڑبونگ مچاتے ہیں ۔ اگر کوئی ناسازیٴ طبع کی بنا پر نیچے کمروں میں سویا ہوا ہے، اسے پہنچنے والی ذہنی اذیت کا احساس تک نہیں کیا جاتا۔ لاہور زندہ دلوں کا شہر سمجھا جاتا رہا ہے مگر یہاں کی زندہ دلی اب ہلڑ بازی کا رنگ اختیار کرچکی ہے کسی ثقافتی تہوار میں جس شائستگی اور سماجی نفاست کی توقع کی جاتی ہے، بسنت کے موقع پر اس کے بالکل برعکس مظاہرہ کیا جاتاہے۔ لاہور میں شادی بیاہ کے موقع پر تو کھانوں پر ابھی تک پابندی ہے، مگر بسنت کے موقع پر جس اِسراف کے ساتھ گھر گھر کھانوں اور دعوتوں کا اہتمام کیا جاتاہے، ا س کی طرف ابھی تک توجہ نہیں کی گئی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس طرح کی دعوتوں میں مجموعی طور پر کروڑوں روپے اُڑا دیئے جاتے ہیں ۔ بسنت کے موقع پر کس قدر جوش و خروش اور جنون خیزی کا مظاہرہ کیوں کیاجاتا ہے؟ اس کی ذمہ داری کسی ایک طبقہ پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ حکومت، ذرائع اَبلاغ، پریس، سیکولر طبقہ، والدین، اساتذہ ، سماجی راہنما، طبقہ علما سب نے اس معاملے میں کوتاہی کا ارتکاب کیاہے۔ ہمیں اعتراف کرنا چاہئے کہ ہم نے نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت اور راہنمائی کے فرائض کو اَحسن طریقے سے نبھانے میں غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ماضی قریب میں پتنگ بازی کو آبرو مندانہ شغل یا تفریح نہیں سمجھا جاتا تھا۔ صدر ضیاء الحق مرحوم کے دور تک ہر سال بسنت کے موقع پر حکومت پنجاب کی طرف سے تمام اِداروں کے سربراہوں کو ہدایت کی